مہنگائی میں کمی کی نوید

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے نوید سنائی ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان پٹرولیم مصنوعات، کوکنگ آئل، گندم، دالیں اور روزمرہ ضرورت کی بیشتر اشیاء باہر کے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں دو سے تین سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور پاکستان پر بھی عالمی مہنگائی کے اثرات پڑنا فطری امر ہے۔ پشاور پریس کلب کابینہ کی تقریب حلف برداری سے خطاب میں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ مہنگائی ہی موجودہ حکومت کے لئے واحد چیلنج ہے جس سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے احساس کفالت پروگرام، صحت کارڈ، احساس راشن پروگرام، پناہ گاہوں کی تعمیر اور وظائف کے اجراء کی شکل میں ریلیف پروگرام شروع کیاگیا ہے۔ 
یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ارباب اختیار و اقتدار کو عام آدمی کو درپیش مشکلات کا احساس ہے۔ اور انہیں دور کرنے کے لئے ممکنہ حد تک اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔کورونا کی مہلک وباء سے جہاں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں وہیں مہنگائی کی پے در پے لہروں نے تنخواہ دار،مزدورطبقے اورکم آمدنی والے لوگوں کے لئے جسم و جان کا تعلق برقرار رکھنا دوبھر کردیا ہے۔ ایک طرف روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں اور کاروبار میں مندی کے رجحان نے آمدنی گھٹا دی ہے جبکہ اخراجات میں دو سے تین سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ماہوار دو مرتبہ اضافہ ہورہا ہے۔جس کی وجہ سے آٹا، گھی، کوکنگ آئل، چائے، چینی، چاول، دالوں، سبزیوں اور دیگر روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتارہا ہے۔ حکومت کی سرتوڑ کوششیں اپنی جگہ اہم ہیں تاہم ان مشکلات کو یکسر ختم کرنا ممکن نہیں۔ خصوصاً درمیانہ طبقے کے لئے گھروں کا چولہا گرم رکھنا اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے حکومت نے مزدور کی کم سے کم تنخواہ اکیس ہزار روپے ماہانہ مقرر کردی تھی مگر حکومت کو ان اقدامات پر عملدر آمد کو مسلسل مانیٹر کرنا چاہئے کیونکہ مانیٹرنگ کا موثر نظام موجود نہ ہونے کے باعث حکومت کے ریلیف پروگرام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔وزیراعلیٰ کے اس کہنے  میں کوئی مبالغہ نہیں کہ موجودہ حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کا احساس ہے۔
پشاور میں عام لوگوں کی سفری مشکلات کے پیش نظر بی آر ٹی سروس شروع کی گئی اس منصوبے پر اگر زیادہ اخراجات بھی آئے ہیں تو عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوئے ہیں ان گاڑیوں میں محنت کش، عام شہری، طلبا و طالبات اور خواتین سفر کرتی ہیں۔اسی طرح پناہ گاہ، دستر خوان، کفالت پروگرام اور صحت سہولیات سے بھی عام لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے قومی وسائل کی بچت کے لئے کفایت شعاری پروگرام شروع کیاتھا۔ اس مہم کو دوبارہ فعال بناکر حکومتی اورسرکاری اخراجات میں خاطر خواہ کمی لانے کا کوئی لائحہ عمل طے کیاجائے تو قومی خزانے پر اخراجات کا بوجھ کم ہوگا اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کیلئے حکومت کو اربوں روپے کے وسائل میسر ہوسکتے ہیں۔