حق تو یہ ہے کہ قومی مفاد و محاذ پر اُن ’غیرسیاسی فتوحات‘ کی تعریف کا حق ادا ہونا چاہئے جو حکمراں تحریک انصاف نے حالیہ چند دنوں میں حاصل کی ہیں۔ اِن میں بعدازاں ہونے والے اقدام کا مختصراً ذکر پہلے کیا جا رہا ہے تاکہ دوسرے زیادہ بڑے اقدام سے حاصل ہونے والے فوائد (پہلوؤں) پر زیادہ غور کیا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ اکتس مارچ دوہزاربائیس کے وزیراعظم عمران خان اپنے ناقدین کو اُس وقت حیران کیا یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کے باوجود‘ جس نے پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے جیسی کٹوتی کا اعلان کیا‘ جو اپنی جگہ اہم تھی‘ وزیراعظم نے آگے بڑھ کر توانائی کی قیمتوں میں بھی کمی کر دی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کمپنیوں اور اِس شعبے سے وابستہ فری لانسرز کے لئے ٹیکس میں چھوٹ دیدی‘ آئی ٹی سٹارٹ اپس کے لئے کیپٹل گین ٹیکس سے استثنیٰ اور تعلیم سے فارغ التحصیل طلبہ (گریجویٹس) کے لئے مہارت پر مبنی انٹرن شپ اور فلاحی بہبود کے احساس پروگرام کے تحت وظائف میں اضافے کی نوید بھی سنا دی۔ علاوہ ازیں توانائی اور ایندھن کی قیمتیں اگلے بجٹ تک برقرار رکھنا بھی اپنی جگہ اہم ہے‘ جس کی مثال کم سے کم موجودہ دور حکومت میں نہیں ملتی۔
قومی سیاست سے قومی مفاد تک وزیراعظم عمران خان چھائے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز (دو مارچ دوہزار بائیس) ”کامیاب پاکستان پروگرام“ کے تحت 407 ارب روپے مالیت کے بلاسود قرضہ جات کی فراہمی کا اعلان کیا‘ اِس حکمت ِعملی سے مستحق قرار دیئے گئے 45 لاکھ خاندان اگر چاہیں تو فائدہ اُٹھا سکیں گے۔ مذکورہ بلاسود قرض چھوٹے پیمانے پر کاروبار‘ گھر کی تعمیر‘ فارمنگ اور فنی تربیت حاصل کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت پہلے ہی ڈھائی ارب روپے مستحق خاندانوں میں بطور امداد تقسیم کر چکی ہے تاہم اِس خرچے کا زیادہ چرچا نہیں کیا گیا۔
حالیہ چند روز میں وزیراعظم نے روس کا دورہ کیا‘ جسے خاطرخواہ پذیرائی نہیں ملی اور چونکہ وزیراعظم کی شخصیت کو قومی سیاست کے تناظر سے دیکھا جا رہا ہے اِس لئے اُن کی جملہ کامیابیوں اور ناکامیوں پر مبنی کارکردگی کو ترازو کے ایک ہی پلڑے میں ڈالا جا رہا ہے جو مبنی برانصاف رویہ نہیں۔ مثال کے طور پر وزیراعظم کے دورہئ روس کو عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ نے خاطرخواہ توجہ بصورت پریس کوریج نہیں دی اور اِس دورے کو غیراہم بنا کر پیش کیا گیا۔ کچھ معروف تجزیہ کاروں نے تو یہاں تک لکھا کہ روس یوکرین کے موجودہ بحران میں پاکستان کی مدد نہیں کرسکتا جبکہ ایک صائب الرائے کہلانے والے طبقے نے وزیراعظم کے دورے کو روس کے ساتھ تعلقات متوازن یا معمول پر لانے کی کوشش سے تعبیر کیا لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ کبھی کبھی اپنے استطاعت سے زیادہ وزن اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایسی کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ مالیاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو اِس وقت دنیا کو کوئی بھی ملک پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار نہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران روس کو پاکستان کی اوسطاً ایک سو پچاس ملین (ساڑھے دس کروڑ) ڈالر کی برآمدات اور یوکرین کو اُنچاس ملین (چار کروڑ نوے لاکھ) ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔ روس سے مجموعی سالانہ درآمدات اوسطاً ستائیس کروڑ ستر لاکھ جبکہ یوکرین سے بیس کروڑ ڈالر ہیں اور اِن اعدادوشمار کی بنیاد پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے دورے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو سراسر گمراہ کن تاثر ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے وزیراعظم کا دورہئ روسی صدر کی دعوت پر کیا گیا تھا اور کوئی بھی اِس بات کا جواب دینے کو تیار نہیں ماضی کے کتنے ایسے پاکستانی سربراہ گزرے ہیں جنہیں روس نے اِس قسم کی عزت افزائی کے قابل سمجھا ہو؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکہ روس کے یوکرائن پر حملے کی مخالفت کر رہا ہے لیکن وزیراعظم نے روس دورے کی دعوت قبول کی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ روس کی افواج اُنہی لمحات میں یوکرائن میں داخل ہو رہی تھیں۔ درحقیقت پاکستان نے امریکہ کو پیغام دیدیا ہے کہ اب پاکستان کے لئے امریکہ کے قومی مفادات اہم نہیں اور اِس بات سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون امریکہ کا دوست ملک ہے اور کسے امریکہ اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
توجہ طلب ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال حتی کہ مرکزی خیال تک جس تیزی سے موجودہ حکومت کے دور میں تبدیل ہوا ہے ماضی میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہی کی کامیابی ہے کہ مسلمان ممالک ایک نئے مرکز اور ایک نئی قیادت پر جمع ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ کیا یہ بات غیراہم اور معمولی ہے کہ پاکستان نے امریکی پالیسی کے خلاف نہ صرف روس بلکہ چین سے بھی اپنی قربت میں اضافہ کیا ہے اور یہ قربت صرف ملاقاتوں کی حد تک نہیں بلکہ اقوام متحدہ میں تعاون کی صورت بھی دنیا کے سامنے آ چکی ہے‘ جس سے واشنگٹن کے لئے فیصلہ کرنا آسان ہوگیا ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے لئے اپنے مہروں کو متحرک کرے اور جس قدر جلد ممکن ہو قومی فیصلہ سازی سے تحریک انصاف کو الگ کر دے لیکن شاید اب ایسا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں میں کچھ اِس انداز سے ’ردوبدل‘ کیا گیا ہے کہ اِسے واپس کرنا کسی بھی دوسری یا تیسری حکومت کے لئے ممکن نہیں رہے گا۔ ناقدین جس ایک پہلو کو فراموش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس ابھی ایک سال سے زائد کا وقت باقی ہے اور ابھی بہت کچھ ایسا ہونے والا ہے‘ جس سے داخلی و خارجی محاذوں پر قلیل اور طویل المدتی کامیابیاں دیکھنے کو ملیں۔ پاکستان نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے اور بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو جیسے کثیرالمقاصد تجارتی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں شرکت اور ”روس و چین بلاک“ میں شامل ہونے سے صرف اور صرف امریکہ کو مخاطب کیا ہے کہ تبدیلی کے داعی (وزیراعظم عمران خان) نے ’سٹرٹیجک کہلانے والی پارٹنرشپ‘ کو تبدیل کرنے سے پاکستان کی خارجہ ہی نہیں بلکہ داخلہ‘ سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں میں بھی ”نئے باب“کا اضافہ کیا ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ جو طبقات پاکستان کو عالمی سیاست اور عالمی اقتصادیات کا ”بڑا کھلاڑی“ نہیں سمجھتے (یقینی دکھائی دے رہا ہے کہ) اُنہیں بہت جلد تجزئیات پر نظرثانی کرتے ہوئے اپنی رائے (مؤقف) سے رجوع کرنا پڑے گا۔