معاشی ناکامیاں: حساب و احتساب 

ایک غیرسرکاری ادارے ’نمبیو ڈاٹ کام (numbeo.com) کے جاری کردہ اعدادوشمار کی بنیاد پر کہا گیا تھا کہ سال دوہزاراکیس کے وسط تک پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک تھا۔ مذکورہ رینکنگ میں کل 139ممالک شامل تھے‘ جن میں مہنگے اور سستے ممالک کے بارے تفصیلات بھی فراہم کی گئیں اور اِس درجہ بندی کی متنوع رینج میں پاکستان کا ذکر اُن ممالک میں کیا گیا جہاں بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں دیگر ممالک سے کم تھیں اگرچہ یہ پہلا ایسا موقع نہیں کہ جب پاکستان کسی ایسی فہرست میں سب سے نیچے رہا ہو‘ درحقیقت مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح سال دوہزاراٹھارہ سے کم ہے اور ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے کئی ممالک کورونا وبا کی وجہ سے معاشی مشکلات سے دوچار ہوئے لیکن پاکستان میں بنیادی استعمال کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اعتدال پر رہیں۔  مہنگائی سے متعلق جمع کئے جانے والے اعدادوشمار حکومتی ادارے ایک خاص طریقے سے جمع کرتے ہیں‘ جس میں منڈی یا بازار کے نرخ نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ کے جاری کردہ نرخناموں کی بنیاد پر مہنگائی کا تاثر قائم کیا جاتا ہے‘مثال کے طور پر گندم کی فصل یا چینی کی پیداوار کے بارے میں اعدادوشمار سے عیاں ہوتا ہے کہ ملکی ضرورت سے زیادہ گندم یا چینی ذخیرہ کر لی گئی ہے جبکہ ہر سال گندم و چینی کی قلت کے باعث یہ دونوں اجناس اور دیگر غذائی ضروریات جیسا کہ دالیں سبزی حتیٰ کہ خشک دودھ اور اِس سے بنی ہوئی مصنوعات وغیرہ بھی درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومتی اشاریہ جات (حساب کتاب) معاشی اشارے کے طور پر شمار کئے جانے کے لئے نہیں ہوتے۔
 درحقیقت ان حسابات کا مقصد کارپوریٹ شعبے کی مجموعی کارکردگی ہوتی ہے تاکہ درجہ بندی سے حاصل نتائج کی بنیاد پر حکومت اور بڑے ادارے اپنے ملازمین کے لئے معاوضے یا مراعات کے پیکجز بارے فیصلہ کریں‘ بجائے اس کے کہ اِن اعدادوشمار کسی ملک کی زندگی کی لاگت یا عام قیمت کی سطح کی تصویر پیش کی جائے۔ ان درجہ بندیوں کے لئے پبلک سیکٹر استعمال ایک خاص حد سے زیادہ نہیں کیا جاتا جبکہ ایسا کرنا ممکن ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مہنگائی بارے درجہ بندی بنانے کے لئے استعمال ہونے والے زیادہ تر اشاریے پبلک سیکٹر کی بجائے کارپوریٹ ہی کے وسائل سے اخذ ہوتے ہیں۔ یہ درجہ بندی قیمتوں اور لاگت کو انتہائی متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کی آمدنی کے نقطہئ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے اکثریتی آبادی یعنی محنت کش (مزدور) طبقے کی مالی حالت یا قوت خرید کی درست تاثر کے عکاس نہیں ہوتے۔بنیادی بات یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں مہنگائی میں اضافہ جس تیزی سے ہوا ہے اِس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 
مہنگائی کی صورت یہ بحران اگر عوام کی قوت خرید (آمدنی) میں اضافے کے ساتھ ہوتا تو اِس کا منفی اثر عوام کو اِس حد تک پریشان کرنے کا باعث نہ بنتا لیکن ایک ایسا ملک جس کی خام قومی آمدنی کا 90 فیصد قرضوں کی اقساط یا اُن پر سود کی ادائیگی کی نذر ہو رہا ہو یعنی قومی خزانے کو ہونے والی ہر ایک سو روپے کی آمدنی میں سے نوے روپے اگر قرضوں کی نذر ہو رہے ہیں تو یہ قطعی طور پر مثالی صورت حال نہیں‘ تحریک انصاف نے جن ایک کروڑ ملازمتی مواقعوں کا بندوبست اور کم قیمت گھروں کا جو وعدہ کیا تھا اگر کورونا وبا کی وجہ سے معاشی و سماجی تعطل پیدا نہ ہوتا تو اِس وعدے کی تکمیل میں بڑی حد تک پیشرفت دیکھنے میں آتی لیکن معاشی صورتحال اُس مقام تک آ پہنچی ہے جہاں عوام  صرف یہ چاہتے ہیں کہ کاروباری و معاشی معمولات بنا بہتری ہی رواں دواں رہنے دیئے جائیں۔ مہنگائی سے متاثرین میں زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے طبقات بالخصوص چھوٹے کاشتکار بھی شامل ہیں جن کے لئے کھاد کا ہر دن سنگین ہوتا بحرانچیلنجہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت و اہمیت رکھتی ہے لیکن مہنگے داموں کھاد کی دستیابی سے زرعی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب رواں سیزن کے بعد گندم سے لیکر سبزی اور پھل تک اجناس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔