اے مرے دوست مرے یار ذرا آہستہ

اب تو خیر سڑکوں پر ٹریفک کا سیلاب ہمہ وقت بہتا رہتا ہے شاید ہی کوئی بڑی شاہراہ ہو جو اس بے ہنگم ٹریفک سے محفوظ ہوں، گاڑیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ صبح سے رات گئے تک دیکھا جاسکتا ہے اس میں قدرے تعطل اس وقت آ تا ہے جب کسی ”بڑے صاحب“ کی سواری گزر رہی ہو، تو ٹریفک کو روک دیا جاتا ہے، ٹریفک باہر کی دنیا میں سڑکوں پر بہت ہے مگر بایں ہمہ وہ ٹریفک کے اصولوں کو توڑتے نہیں ہیں اس لئے افرا تفری کا سماں کہیں نظر نہیں آتا اور رواں دواں ٹریفک میں قدرے تعطل وہاں بھی آ جاتا ہے مگر کسی وی آئی پی کی سواری کے گزرنے کے لئے نہیں جونہی ایمبولنس کا سائرن سنائی دیتا ہے ساری گاڑیاں رک جاتی ہیں اور بھلے سے سگنل سبز بھی ہو مگر کوئی گاڑی آگے نہیں بڑھاتا،اسی طرح سکول کے بچوں کی بس جب کسی بچے کو ڈراپ کرنے کے لئے رکتی ہے تو پاس سے گزرنے والی گاڑیاں بھی رک جاتی ہیں، کولو راڈو(امریکہ) میں یہ منظر میں نے بارہا دیکھا،ایک بار میں نے افراز سے پوچھا تھا کہ ایمبولنس کے لئے تو گاڑیوں کا اپنی اپنی جگہ رک جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر سکول بس تو بچوں کو اتارنے کے لئے مین روڈ پر اپنے مخصوص سٹاپ پر رکتی ہے اس کے لئے یہ احتیاط کیوں؟ افراز نے کہا کہ پاپا اصل میں بچوں کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی، بچے کبھی کبھی بس سے اتر کر بلا وجہ کسی بھی سمت بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، اس سے حادثے کا امکان ہو تا ہے، مجھے یاد آیا کہ کوئی تیس برس پہلے ایک بار پشاور میں تیز بارش کے دن ورسک روڈ کے ایک معروف نیم سرکاری سکول کی بس دلہ زاک روڈ پر واقع ”النور“ کالونی کے پاس کچھ بچوں اور ایک ٹیچر کو اتار کر جونہی رو انہ ہوئی ایک بچہ شاید زمین سے کچھ اٹھانے کے لئے مڑا تو ڈرائیور نے بس چلا دی جس کی وجہ سے وہ بچہ اپنی ہی بس کے نیچے آگیا تھا، وہ بچہ میرے دوست بزم بہار ادب کے ملک افتخار کا بھتیجا یا بھانجا تھااس دن پورا شہر دکھی تھا۔ ایسا ہی ایک حادثہ اس وقت بھی پیش آیا تھا جب ایک سکول کے طالب علم کسی وی آئی پی شخصیت کے استقبال کے لئے سڑک کے دونوں جانب کھڑے تھے اور وہ گاڑیوں کی طرف دوڑ پڑا تھا وہ بھی عجیب زمانہ تھا ہم جب سکول میں تھے تو ہائی سکول اکوڑہ خٹک چونکہ سڑک کے کنارے ہے اس لئے آئے دن ہمیں کلاسوں سے نکال کر سڑک کے دونوں جانب کھڑا کر دیا جاتا تھا، اس اہتمام کی وجہ یہ ہوتی کہ کسی بڑے صاحب کی سواری نے ادھر سے گزرنا ہو تا تھا اس سے کئی گھنٹے پہلے موسم کی تمام تر شدّت کو نظر انداز کر کے کھڑا کر دیا جاتا اساتذہ کرام بھی وقفے وقفے سے نگرانی کے لئے کھڑے ہو تے، بڑے صاحبان کے انتظار میں ہم بچے کئی کئی گھنٹے بھوکے پیاسے سڑک کے دونوں طرف الرٹ کھڑے ہوتے اور ”صاحب“ کے آنے پر بہ آواز بلند السلام و علیکم کہتے اور شاید ایک آدھ نعرہ بھی لگاتے مگر جو ہم خود ہی سنتے کیونکہ بڑے صاحب تو شیشہ بند کر کے بیٹھے ہوتے اور پھر گاڑی بھی فراٹے بھرتی ہوئی گزر جاتی اور ہمیں واپس سکول کی طرف ”ہانک“ دیا جاتا تب سڑکوں پر ٹریفک بہت کم ہوتا تھا۔ یہ اچھا ہوا وہ چلن اب ختم ہوا ورنہ اب سڑکوں پر جو ٹریفک کی صورت حال ہے اس سے
 حادثات کے امکانات بڑھ جاتے۔ البتہ وی آئی پی مومنٹ کی وجہ سے اب بھی کم کم ہی سہی مگر بعض اوقات ٹریفک کو روک دیا جاتا ہے ابھی ہفتہ بھر پہلے ٹیلی فون پر میری بات برخوردار ذی شان سے ہو رہی تھی وہ لاہور جانے کے لئے موٹر وے پر تھے، مگر سخت غصہ میں تھے کہہ رہے تھے کہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر پچھلے بیس منٹس سے ٹریفک کو ر وکا ہوا ہے کہتے ہیں کوئی وی آئی پی گزرنے والا ہے، نئے زمانے کے ذی شان کو کیا معلوم کہ ہم نے اپنے لڑکپن کے کتنے دن سڑک کے کنارے اس لئے بھوکے پیاسے گزارے ہیں کہ جب ادھر سے بڑے صاحب گزریں تو ہم انہیں سلام کہہ سکیں گے، مگر آج کل تو ایسا نہیں ہوتا، معلوم کریں کہ کس کے لئے ٹریفک روک دی گئی ہے۔میں نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کا کہا، اس نے کہا پتہ کرتا ہوں اور فون بند کر دیا لیکن دو منٹ کے بعد اس کا فون آیا اور اب وہ بہت پرسکون انداز میں کہہ رہا تھا آئی ایم سوری پاپا، میں بلا وجہ طیش میں آ گیا تھا، اب معلوم کیا تو شرمندگی ہو رہی ہے، اس طرح کی ” وی آئی پی مومنٹ“ کے لئے تو میں ساری رات
 بھی سڑک پر رک سکتا ہوں، حیران ہو کر پوچھا کیوں؟ کون گزر رہا تھا، کہنے لگا کہ ”آسٹریلین کرکٹ ٹیم گزر رہی تھی“ اتنے زمانے بعد کوئی ٹیم پاکستان آئی ہے اور ان کی حفاظت کے لئے یہ سب کیا جارہا تھا۔ مجھے یہ بہت اچھا لگا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ کسی بھی واقعہ پر کوئی تبصرہ کرنے سے پیشتر معلومات لینا بہت ضروری ہے۔ ہم سوچے سمجھے بغیر بسا اوقات اس طرح کے تبصرے کرتے رہتے ہیں، یہ عادت ہمیں سوشل میڈیا سے پڑی ہے، وہاں بھی یار لوگ کسی بھی پوسٹ کو پڑھے بغیر ہی اس پر کمنٹس کی عادت  ِ بد کا شکار ہو چکے ہیں، فیس بک کی اکثر پوسٹس پر یہ بھی لکھا ہوتا ہے ”آپ فوری کمنٹس کر کے یا اسے ’’لائک‘‘کر کے پہلے تبصرہ نگار بن سکتے ہیں گویا یہ بھی ایک اعزاز گنا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ سے دوڑ بن گئی ہے، ہمارے دوست اور بہت اچھے شاعر ڈاکٹر محمد شفیق کہتے ہیں کہ اب بھلا کون مشاعروں کا انتظار کرے اور اس میں سو پچاس لوگوں کو اپنا کلام سنا کر داد حاصل کرے، اب تو غزل کہہ کر فیس بک پر لگا دیں، منٹوں اور گھنٹوں کے حساب سے ہزاروں لوگوں تک پہنچ جائے گی اور لائیکس یا کمنٹس گننا بھی مشکل ہو جائے گا، پہلے پہل شعر پرکھنے کے حوالے کچھ اور ہو ا کرتے تھے جس کی طرف صائب تبریزی ؔ نے اشارہ بھی کیا ہے۔
صائب  دو  چیز   می   شکند ر  ِ شعر   را
 تحسین  ناشناس   و  سکو ت   ِ  سخن  شناس 
 (صائب ؔ  شعر کی  قدر  و قیمت  دو چیزیں بہت کم کر دیتی ہیں ایک تو شعر سے نا واقف اور نابلد شخص کی داد و ستائش اور تعریف اور دوسری شعر کی فہم رکھنے والے اور اس کی آگہی رکھنے والے شخص کی خاموشی) مگر سوشل میڈیا پر نظر آنے والے اشعار میں بہت سے بے وزن اشعار میں وزن پیدا کرنے کے لئے غالب، میر او ر فراز تک کا نام بھی لکھ دیا جاتا ہے تاکہ ”سند رہے اور وقت بے وقت کام آتا رہے، گویا اب ”تحسین نا شناس“ کا ایک ہنگامہ بپا ہے۔ مانو یہ بھی ٹریفک کی طرح کا ایک سیلاب ہے جس میں فیس بک سے جڑے سب دوست بہے جا رہے ہیں، البتہ سوشل میڈیا کے ٹریفک میں میں وی آئی پی کی آمد تعطل کی بجائے اور تیزی پیدا کر دیتی ہے اور اس تیزی کے حوالے سے کوئی میری زبان میں کسی کو اتنا بھی نہیں کہہ سکتا۔
وقت نے دیکھ لے کیا حال کیا  ہے میرا
 اے مرے دوست  مرے یار ذرا آہستہ