صوبائی دارالحکومت کے وسطی علاقے قصہ خوانی بازار سے متصل ”کوچہ رسالدار‘‘میں واقع مرکزی و جامع شیعہ مسجد میں نماز جمعۃ المبارک کے اجتماع کے دوران ہوئے خودکش حملے نے ایک مرتبہ پھر پشاور کو لہولہان کر دیا ہے! چار مارچ کی دوپہر (ایک بج کر سات منٹ پر) ہونے والی اِس دہشت گرد واردات کا نشانہ بننے والے شہداء ور زخمیوں میں اکثریت ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے‘ جن کے عزیزواقارب کے لئے یہ حقیقت‘ صدمہ اور دکھ ناقابل برداشت بھی ہے اور ناقابل یقین بھی کہ اندرون شہر‘ پُرپیچ گلی کوچوں میں دہشت گردی کی اِس واردات کہ جس میں دو دہشت گرد جن میں سے ایک خودکش بارودی جیکٹ پہنے ہوا تھا کس طرح مسجد تک پہنچے جہاں اُنہوں نے سب سے پہلے سکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور اِس کے بعد فائرنگ کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے۔ خودکش حملہ آور صفوں میں بیٹھے نمازیوں کو پھلانگتے ہوئے منبر کے قریب (تیسری صف میں) پہنچا اور جسم سے بندھے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا۔ خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان 2001ء سے حالت جنگ میں ہے۔ مسجد کی سکیورٹی پر دو اہلکار بیس پچیس گز کے فاصلے پر تعینات تھے‘ جن میں ایک شہید اور دوسرا زخمی ہوا۔“ ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے ابتدائی تفتیش کے بارے میں بتایا کہ ”پانچ سے چھ کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔“ پشاور پولیس کے سربراہ (سی سی پی او) اعجاز خان نے کہا کہ ”پشاور کی کسی بھی مسجد پر حملے کے حوالے سے ”سکیورٹی تھریٹ‘‘موجود نہیں تھا۔“ مذکورہ مسجد میں چار سے پانچ سو افراد ہفتہ وار نماز جمعہ کے اجتماع میں شرکت کرتے ہیں اور گزشتہ روز بھی مسجد کی نچلی منزل پر موجود ”مین ہال‘‘میں سو سے ڈیڑھ سو افراد موجود تھے‘ جن میں اکثریت بزرگوں کی تھی جسے خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا کیونکہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے صرف جید عالم دین اور اِمام مسجد ہی نہیں بلکہ پشاور کے معروف ذاکرین اور علمائے کرام بھی پہلی صف میں موجود تھے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنیوالوں نے بیک وقت کئی اہداف حاصل کئے۔ سب سے پہلے تو وہ دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کو خفیہ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی دہشت گرد واردات سے زیادہ اُس کی منصوبہ بندی زیادہ مشکل ہوتی ہے‘اِس مرحلے پر بھی دہشت گرد کامیاب رہے کہ اُنہوں نے ایک ایسی مرکزی جامع مسجد کا انتخاب کیا جہاں کسی بھی مسلک کی بیک وقت کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ مسجد کے’’سی سی ٹی کیمروں‘‘سے حاصل کردہ فوٹیجز سے معلوم ہوا کہ 1: خودکش حملہ آور مسجد کے مرکزی دروازے کی بجائے عقبی دروازے سے داخل ہوا۔ ایک ایسے عقبی دروازے سے جس کے بارے میں بہت غیرمتعلقہ بہت ہی کم لوگوں کو علم ہوگا۔ 2: خودکش حملہ آور سیاہ رنگ کے لباس میں ملبوس تھا جس کی وجہ سے اُس کی شناخت میں مشکل ہوئی کیونکہ اہل تشیع کی اکثریت اِسی رنگ کا لباس استعمال کرتی ہے۔ اِس طرح حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے لباس جیسی باریکی کا بھی دھیان رکھا۔ 3: خودکش حملہ آور نے مسجد کے قریب پہنچنے پر پستول سے فائرنگ کی اور بے خوفی سے فائرنگ کرتا ہوا نہایت ہی تیزی سے مسجد میں داخل ہوا جسکے چند سیکنڈ کے بعد دھماکہ ہوا۔ یہ چند سیکنڈ کا وقت وہ عرصہ تھا جو منبر تک پہنچنے میں لگا۔ 4: مسجد میں داخل ہونے کیلئے وہ دروازہ استعمال کیا گیا جو منبر کے قریب تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ 5: اگر خودکش حملہ آور پہلی مرتبہ مسجد میں داخل ہو رہا ہوتا تو اُس وہ اتنے پراعتماد انداز میں کاروائی نہ کرتا 6: کلوزسرکٹ کیمروں میں حملہ آور کا چہرہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر خوف کے آثار نہیں اُس سے دہشت گرد تربیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور یقینا اِس قسم کے حملے میں ملک دشمن بیرونی قوتوں کا ہاتھ انتہائی واضح ہے۔دشمن دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور یہی وقت ہے کہ اِس منصوبہ بندی کو اتحاد و اتفاق اور صبر و استقامت کے ذریعے ناکام بنایا جائے۔