حالات کا تقاضا

آسٹریلیا کی ٹیم ربع صدی بعد سیریز کھیلنے پاکستان آئی ہے۔ ملک دشمنوں کی کوشش ہے کہ نیوزی لینڈ ٹیم کی طرح آسٹریلوی ٹیم بھی سیکورٹی کا بہانہ کرکے سیریز ادھوری چھوڑ کر واپس چلی جانے پر مجبور کیاجاسکے۔ تاہم مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں اور انتظامیہ نے یہ کہہ کر سازشی عناصر کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ پاکستان میں وہ خود کو مکمل طور پر محفوظ سمجھتے ہیں۔پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے۔ہم نے 80ہزار جانوں کے نذرانے پیش کئے اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا۔ پاک فوج، پیراملٹری فورسز، پولیس، عوام اور آرمی پبلک سکول کے ننھے بچوں کی بے مثال قربانیوں کے طفیل ملک میں امن قائم ہوا ہے۔ امن بحال رکھنے پر پوری قوم اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پشت پر کھڑی ہے۔
 یہ بات طے ہے کہ آنے والے دنوں‘ ہفتوں اور مہینوں میں امن و امان کی صورتحال کو سبوتاژ کرنے کی مزید کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ کراچی سے لے کر چترال اور گوادر سے لے کر خنجراب تک پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے شیطانی کھیل کے پس پردہ بھارت اور امریکہ کا ہاتھ ہے۔ بھارت نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس مملکت خداداد کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ اسے بدنام، کمزور اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے روزاول سے کوشاں ہے۔ ملک کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت نے خارجہ پالیسی کو ازسرنو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکہ نوازی کی دیرینہ پالیسی ترک کرکے روس اور چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا بیجنگ اور ماسکو کا حالیہ دورہ خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا عکاس ہے۔امریکی قیادت میں سرمایہ دارانہ نظام کی تقلید ہمیں راس نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے۔ واشنگٹن کا پلڑا ہمیشہ اسلام آباد کے بجائے دلی کی طرف جھکارہا۔ جس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ گذشتہ 75سالوں میں بھی حل نہیں ہوسکا۔
 1971ساتویں امریکی بحری بیڑی کی آمد کے انتظار میں ہم نے مشرقی پاکستان گنوا دیا۔غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دینے کے باوجود امریکہ ہمیشہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتا رہا۔اور ہم پر اکثر و بیشتر مختلف حیلے بہانوں سے پابندیاں لگاتا رہا۔ ہر ملک اپنے قومی مفادات کے مطابق خارجہ اور داخلی پالیسی تربیت دیتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سات سمندر پار امریکہ کے ساتھ دوستی کا ہمیں ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ اسلئے خارجہ تعلقات  کو متواز ن رکھنے کے لئے اس پر نظر ثانی ناگزیر تھی۔ دہشت گردی کی صورت میں بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ملک کے اندر  تمام مکاتب فکر اور افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمن کی سازشوں سے اپنے آپ کو باخبر رکھتے ہوئے ان عناصر کی مذموم کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے ہر سطح پر مربوط اور منظم کوششیں کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم مشکل حالات میں زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کئی مواقعوں پر بحیثیت قوم اس کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے اب حالات ایک بار پھر اسی طرح کی ثابت قدمی کا تقاضہ کرتے ہیں۔