چوبیس سال بعد آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی ہے جس کے بارے میں آسٹریلین ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز (Pat Cummins) نے ادارتی مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ ”ہم جانتے ہیں کہ یہ کوئی عام دورہ نہیں ہے۔“ کمنز ٹھیک کہتے ہیں کہ آسٹریلیا کا 2 دہائیوں سے زائد عرصے بعد پہلا دورہ پاکستان ہر لحاظ سے غیرمعمولی ہے کیونکہ یہ دو کرکٹ کھیلنے والی اقوام کے درمیان فاصلوں کو بھی کم کرنے کا باعث بنے گا اور اس دورے نے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ کے دلچسپ مقابلوں سے شائقین کو محظوظ ہونے اور انتظار کے ایک طویل و تکلیف دہ وقفے کو ختم کیا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ مستقبل قریب میں دیگر ممالک کی کرکٹ ٹیموں کو پاکستان کا دورہ کرنے کے امکان کو بھی واضح اور روشن کر دیا ہے۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) جیسے کامیاب مقابلوں کے فوراً بعد‘ آسٹریلین ٹیم کی آمد سے پاکستان عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور قومی کرکٹ کی بصورت ’پی ایس ایل‘ بحالی اور بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی جیسے اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں۔ اِس پیشرفت کو یقینی بنانے میں کئی عوامل کا عمل دخل ہے‘ جن میں کئی عالمی کھلاڑیوں کی دلچسپی اور بالخصوص عالمی کرکٹ کونسل کی توجہ بھی شامل ہے‘ جس کے لئے پاکستان کی قومی کرکٹ کے فروغ سے متعلق فیصلہ سازوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے پاکستان مہمان نواز ملک ہے اور پاکستانی بالعموم اپنی مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں۔ بلاشک و شبہ آسٹریلیا اس وقت دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔ موجودہ سیریز ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہے جو اس دورے اور مقابلوں کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
یہ سیریز یقینا پاکستان کے لئے طاقتور آسٹریلیا کو فتح دلانے کا بہترین موقع ہو گی۔ پاکستان کی ٹیم اور کھلاڑیوں کو ہوم گراؤنڈز کا فائدہ حاصل ہے‘ جس میں موافق موسم کا عمل دخل بھی ہوتا ہے جیسا کہ دیکھنے میں آیا کہ راولپنڈی میں سپن باؤلرز کے لئے مددگار وکٹ تیار کرکے ’ہوم گراؤنڈ‘ سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے دیگر دو مقامات کراچی اور لاہور ہیں جہاں اسی طرح کی وکٹیں تیار کی گئی ہیں جو باؤلرز کو مدد دیں گی اور امکان ہے کہ آسٹریلین بہت جلد اسپینرز کے خلاف اپنی بیٹنگ کے جادو دکھاتے نظر آئیں گے۔ کسی بھی مہمان ٹیم کے لئے سست وکٹوں کی تیاری سے پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے طاقتور اسپن اٹیک کا مقابلہ کرنا صرف آسٹریلیا ہی نہیں بلکہ ہر ٹیم کے لئے مشکل ہے لیکن آسٹریلیا ٹیم کی تیاری کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ وہ کرکٹ کو کھیل کی طرح نہیں بلکہ سائنس کی طرح کھیلتے ہیں اور اِس میں مدمقابل ٹیم کی خامیوں اور اچھائیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
پاکستان ٹیم کے کھلاڑی یقینا جانتے ہیں کہ آسٹریلیا کے پاس بھی ناتھن لیون جیسے عالمی معیار کے اسپنر ہیں اُور آسٹریلیا کے پاس اسٹیو اسمتھ‘ ڈیوڈ وارنر‘ مچل اسٹارک اور کپتان کمنز جیسے میچ جیتنے والے تیز گیند باز بھی ہیں‘ جنہیں کھیلنے کا بہت کم پاکستانی باؤلرز کو تجربہ ہے۔ پاکستان کے پاس شاہین شاہ آفریدی‘ بابر اعظم اور رضوان جیسے کھلاڑی ہیں جو ہوم گراؤنڈ پر شیروں کی طرح غالب آنے کے لئے مشہور رہے ہیں اور خوب جم کر کرکٹ کھیلتے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی کارکردگی اور پاکستان کے خلاف آسٹریلیا کی کارکردگی پر مشتمل سیریز کا ہر مقابلہ اور اِس مقابلے کا ہر دن انتہائی دلچسپ ہے‘ جسے کرکٹ کی دنیا پوری توجہ اور شوق سے دیکھ رہی ہوگی یقینا تمام نظریں پاکستان پر ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ آسٹریلیا کا دورہ بہرصورت کامیابی کے ساتھ‘ حسب پروگرام اختتام پذیر ہونا چاہئے۔