کہنے کو تو دنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے مگر اس ترقی سے مٹھی بھر لوگ ہی آسودگی کی منزل سے ہمکنار ہورہے ہیں جبکہ انفرادی مالی استحکام کی منزل اب بھی بہت دور دکھائی دیتی ہے اکیسویں صدی کے دو عشرے گزر جانے کے باوجود دنیا متعدد مسائل کا شکار ہے۔ آج سے پچاس سال، سوسال یا ایک ہزار سال پہلے کے لوگ کہتے تھے کہ چند برسوں بعد کی دنیا میں ٹیکنالوجی کا بول بالا ہوگا، ہر میدان میں نئی نئی پیش رفتیں ہوں گی، اور آنے والا کل دنیا کو مزید خوبصورت بنا دے گا۔ اْس دورکے بیشتر افراد چاہتے تھے کہ وہ ایسی دنیا دیکھیں جہاں مسائل نہ ہوں۔ دوسری جانب،اکیسیویں صدی میں سانس لینے والے بعض افراد کا خیال ہے کہ آج سے پچاس سال یا سوسال پرانا زمانہ زیادہ اچھا تھا۔ ٹیکنالوجی نہیں تھی، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے، معاشی پریشانیاں زیادہ نہیں ہوتی تھیں اور آمدنی کا توازن برابر تھا۔ دنیا میں نہ بہت امیر لوگ تھے اور نہ ہی بہت غریب۔
اس وقت کے لوگوں میں صبر اور مدد کا جذبہ زیادہ تھا۔آج امیری اور غریبی کا فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ دنیا کی معیشت مستحکم تو ہورہی ہے لیکن جب غور کریں تو احساس ہوگا کہ مجموعی آبادی میں ایسے لوگوں کا فیصد بہت کم ہے جن کی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ ایسے لوگ بہت زیادہ ہیں جن کی آمدنی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ دنیا کی نصف سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے چلی گئی ہے۔مسائل ہر دور میں رہے ہیں ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرانا زمانہ بہتر تھا؟ یا قدیم دور کے لوگوں کے مطابق آنے والی دنیا (جس میں ہم سانس لے رہے ہیں) زیادہ بہتر ہے؟ واضح رہے کہ ہر زمانے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ ترقی ہر زمانے میں ہوتی رہی، مسائل کا سامنا ہر دور کے لوگوں نے کیا لیکن بہتر مستقبل کی امید میں انسان آگے بڑھتا رہا۔ موجودہ دور کے کئی لوگ سوچتے ہوں گے کہ آنے والا کل انسان اور انسانیت کیلئے بہتر ہوگا۔ اسی فکر اور امید کے ساتھ شب و روز گزر رہے ہیں اور انسان ترقی کے زینے طے کرتا جارہا ہے۔
آج بھی ہم یہی کہیں گے کہ مستقبل میں ایک ایسا وقت آئے گا جب دنیا میں مسائل نہیں ہوں گے اور ہم ایک بہتر سیارے پر سانس لے رہے ہوں گے۔دنیا کو بہتر بنانے میں اپنے اپنے شعبوں میں لاکھوں کروڑوں انسان اپنی اپنی صلاحیتوں کی مناسبت سے کام کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے، خاص طور سے کورونا وائرس کی عالمی وباء پھیل جانے کے سبب، دنیا معاشی طور پر بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہر ملک معاشی مسائل کا شکار ہے۔ غریب اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں معاشی بحران آگیا ہے۔ ایسے میں ماہرین معاشیات پیسوں کی درست سرمایہ کاری اور بچت پر زور دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، حکومتوں اور کارپوریٹ سیکٹر کو بھی مشورے دیئے جارہے ہیں کہ حال اور مستقبل میں انسان مالی پریشانیوں کا شکار نہ ہو، اور اس کیلئے لائحہ عمل تیار کرے، اسے ہی انفرادی مالی استحکام کہا جاتا ہے۔ اسی طرح، اگر حکومت ٹھوس اور اہم معاشی اقدامات کرتی ہے تو اس سے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
اگر ہر ملک کی حکومتیں اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے تگ و دو کریں تو پوری دنیا کی معیشت مستحکم ہوگی دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف 1.1فیصد حصہ کروڑ پتی ہے تاہم، دنیا کی معیشت مستحکم ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دولت صرف چند افراد کے ہاتھوں میں گھومتی رہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 56084کروڑ پتی ہیں جن کی مجموعی دولت چھ ٹریلین ڈالرز ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ دولت دنیا کی مجموعی آبادی کے صرف 1.1 فیصد افراد کے پاس ہے کیا یہ دولت کا عدم توازن نہیں ہے؟ اگر یہ توازن ایسے ہی برقرار رہا تو دنیا کو معاشی طور پر صحتمند ہونے کیلئے کئی صدیاں درکار ہوں گی۔ایسا وقت آنے میں بہت وقت لگے گا جب دنیا کا ہر شخص اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے علاوہ بچت کیلئے بھی کچھ رقم نکال سکے گا۔دنیا کے ہر شخص کی قوت خرید میں اضافہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں آنے والی رقم اتنی ہو کہ وہ اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرے، بچت کرے اور ممکن ہو تو سرمایہ کاری بھی کرے۔ یہ ہوگی ایک ایسی دنیا جہاں دولت اور آمدنی کا عدم توازن کم ہوگا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب تمام ممالک اپنے اپنے طور پر اپنی اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلیاں اور ٹھوس منصوبہ بندی کریں گے۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ملک کے کمزور طبقے کیلئے الاٹ کیا گیا سرمایہ ان تک براہ راست پہنچے، جن لوگوں پر ٹیکس ادا کرنا لازمی ہے وہ وقت پر ٹیکس ادا کریں، حکومت اپنے ان اخراجات پر قابو پانے کی کوشش کرے جو غیر ضروری ہیں یا جن کا خرچ بہت زیادہ ہے انہیں کم سرمائے میں کیا جائے، وغیرہ۔
ہر ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ انسان کو انفرادی سطح پر مالیاتی طور پر صحت مند رہنا چاہئے اور حکومت کو ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں جن کا فائدہ صرف امیروں کو نہیں بلکہ ملک کے ہر طبقے کو ہو۔ حکومت کمزور طبقہ کو جو مراعات دیتی ہے، وہ انہیں ملنا بہت ضروری ہے۔ ایسا ہونے ہی پر ملک کے ہر شخص کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا اور ملک معاشی طور پر مستحکم ہوگا انفرادی سطح پر ایک شہری اپنی آمدنی کو مختلف حصوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ کچھ حصہ خرچ کرے اور کچھ بچائے یا پھر اس سے سرمایہ کاری کرے۔ حال اور مستقبل کی مالی طور پر درست منصوبہ بندی ہی اسے مالی طور پر مستحکم کرے گی۔ آج سرمایہ کاری کے مختلف متبادل ہیں جن میں میوچوئل فنڈ، پروویڈنٹ فنڈ، کمپنیوں کیشیئرز، ریئل اسٹیٹ، سونا، سرکاری بانڈ، کرپٹو کرنسی اور بیمہ قابل ذکر ہیں۔ ایک شخص کو مالی طور پر استحکام کا احساس اسی وقت ہوگا جب وہ درست معاشی انتخاب کرے گا، اسے روزگار حاصل ہوگا،اور روزگار کے تحفظ کا یقین ہوگا اور اسی نکتے کو اب حکومتی ترجیحات کاحصہ بنناچاہئے۔