انسانی حقوق پر دوہرا معیار

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے یوکرین پر روسی حملے کو جارحیت قرار دیتے ہوئے قرار داد مذمت کی منظوری دی ہے۔ کونسل میں پاکستان سمیت ایک تہائی ارکان نے قرار داد کے حق یا مخالفت میں ووٹ نہیں دیا اور غیر جانبدار رہے۔پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی فورم پرکسی بلاک کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی کی نشانی ہے۔یوکرین سابق سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔ روس کی گود میں بیٹھ کر یورپی یونین میں شمولیت کا یوکرین کا فیصلہ ماسکو کو دانستہ طور پر اشتعال دلانے کے مترادف ہے”آبیل مجھے مار“والی پالیسی اپنانے والے یوکرینی صدر زیلنسکی کو امریکہ اور یورپی یونین نے یقین دہانی کرائی تھی کہ روس نے اگر اس کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تو پورا یورپ یوکرین کی حمایت میں کھڑا ہوگا۔ وہائٹ ہاؤس اور برطانیہ کی طرف سے دھمکیاں بھی دی جانے لگیں۔ نیٹو کے جنگی طیاروں کو بھی الرٹ رہنے کا حکم جاری کیاگیا۔
 روس نے جب ان دھمکیوں کو نظر انداز کرکے یوکرین کے خلاف فوجی کاروائی شروع کی تو جوبائیڈن اور یورپی یونین کی طرف سے یوکرین جنگ سے خود کو الگ رکھنے اور بیک فٹ پر جاکر دفاعی کھیل کھیلنے کا اعلان کیاگیا۔کیونکہ دوسری طرف سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیرخارجہ سرگئی لاروف کا بیان آیا تھا کہ اگر کسی یورپی ملک نے یوکرین کی فوجی مدد کی تو تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے اور یہ جنگ جوہری ہتھیاروں سے لڑی جائے گی۔امریکہ اور یورپ کو معلوم ہے کہ پیوٹن جوکہتے ہیں وہ کرکے بھی دکھاتے ہیں اس لئے انہیں آ بیل مجھے مارکا کوئی شوق نہیں تھا۔ امریکہ اور یورپ کی عین ضرورت کے وقت بے وفائی نے صدر زیلنسکی کو مایوس کردیا۔کیونکہ انہوں نے امریکہ اور یورپ کی شہ پر ہی ماسکو کے ساتھ پنگا لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
 یوکرینی صدر کا یہ کہنا کہ”اگر یوکرین تباہ ہوگیا تو یورپ بھی نہیں بچے گا“یورپی یونین سے گلہ مندی بھی ہے اور مایوسی کا اظہار بھی ہے۔یوکرینی وزیرخارجہ کا بھی تازہ بیان آیا ہے جس میں انہوں نے نیٹو کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یوکرینی عوام کو دھوکہ دیا۔ اب یوکرین میں جتنا جانی نقصان ہوگا اس کی ذمہ داری امریکہ اور نیٹو پر عائد ہوگی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں روس کے خلاف قرارداد کی حمایت نہ کرکے پا کستان نے یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام آباد کو اب اقوام متحدہ، واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں پر اعتماد نہیں رہا۔اقوام متحدہ اورمغربی ممالک نے کشمیر، فلسطین، قبرص، بوسنیا،عراق  اورشام کے تنازعات میں ہمیشہ منفی کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر امریکہ نے ہمیشہ بھارت اور فلسطین کے معاملے پر اسرائیل کی نہ صرف کھل کر حمایت کی ہے بلکہ دامے، درمے سخنے مدد بھی کر رہا ہے۔
 مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی جارحیت سے نجات اور استصواب رائے کا پیدائشی حق حاصل کرنے کے لئے گذشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں اب تک لاکھوں کشمیری آزادی کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ہزاروں خواتین کے سہاگ اجڑ گئے ہزاروں بچے یتیم ہوگئے۔ لیکن جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو بھارت کی کھلی جارحیت نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک سے زائد مرتبہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کی قرار دادیں منظورکی تھیں مگر ان قراردادوں پر عمل درآمد اس لئے نہیں ہوا کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو کشمیریوں کی جانوں، ان کی عزت و آبرو اور آزادی سے زیادہ اپنے تجارتی مفادات عزیز ہیں مریکہ اور مغرب کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے چھوٹے ممالک خصوصاً اسلامی ممالک دلبرداشتہ ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے مغربی بلاک سے خود کو الگ رکھنے کا فیصلہ بھی ان تلخ تجربات کا نتیجہ ہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور انسانی حقوق کے دیگر علمبرداروں کو یوکرین میں گولہ باری سے خوف زدہ بچوں اور خواتین کے چہروں کے تاثرات تو نظر آرہے ہیں مگر فلسطینیوں، افغانیوں اور کشمیریوں کے رستے زخم نظرنہ آنا قابل مذمت ہے۔