اعتماد بمقابلہ عدم اعتماد

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے نوازلیگی قیادت کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج (سات مارچ) اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل پچانوے کے تحت وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے لئے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم بیس فیصد اراکین کو ایک تحریری نوٹس اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانا ہوتا ہے جسے اجلاس ریکوزیشن کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔ قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہیں گے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اس کی حمایت میں ایک سو بہتر ووٹ درکار ہیں۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ (na.gov.pk) پر دیئے گئے اعدادوشمار کو اگر درست تسلیم کیا جائے تو اِس کے حکومتی جماعت (تحریک انصاف) کو اتحادی سیاسی جماعتوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین‘ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کے سات‘ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے پانچ‘ مسلم لیگ (قائد اعظم) کے پانچ اراکین‘ گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس (جی ڈی اے) کے تین اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔
 اِسی طرح قومی اسمبلی کی ویب سائٹ ہی کے مطابق ایوان ِزریں میں حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد ایک سو باسٹھ ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے چوراسی‘ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرنز کے ستاون‘ متحدہ مجلس عمل کے پندرہ‘ بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی حزب اختلاف کے اتحاد کا حصہ ہیں۔ اگر اِس تناظر میں ’پارٹی پوزیشن‘ دیکھی جائے تو حزب مخالف کو دس مزید اراکین کی حمایت درکار ہے۔ جماعت اسلامی‘ جن کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے‘ نے فی الحال کسی کا فریق (حزب اقتدار یا حزب اختلاف کا) ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (قائد اعظم) اور ’ایم کیو ایم پی‘ کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ سے بھی رابطے کئے جا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت سات ممبران قومی اسمبلی ہیں اور یوں حزب اختلاف کی جماعتیں وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اراکین کی تعداد (ووٹ) پورے کرنے کیلئے حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں تاکہ اُنہیں اپنے ساتھ شامل کیا جا سکے اور یہیں سے سیاسی جوڑ توڑ کا عمل شروع ہوتا ہے۔
 اصولاً سیاسی جماعتوں کو توڑنے کی بجائے جوڑنے کی سیاست کرنی چاہئے کہ اگر کسی ایک حکومت کو قبل ازوقت ختم کرنے کی کوشش کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اِس سے آنے والی سیاسی حکومتوں کیلئے بھی کام کرنا آسان نہیں رہے گا اور حکومت کی ساری توانائی اور توجہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی فکر میں گزرے گی جبکہ حزب اختلاف اپنا حساب چکانے کی کوشش کرے گی تو یہ رجحان کسی بھی طرح خوش آئند (قابل تعریف) نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں یوں تو ہمیشہ ہی سے دعوے کرتی رہتی ہیں لیکن کچھ دعوے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی گونج وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔  اصولاً اور حزب قواعد و ضوابط اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو وزیراعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا لیکن یہاں بات کسی ایک عہدے کی نہیں بلکہ اُس پوری سوچ اور حکمت عملی اور نظریئے کی۔ تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ اقتدار ملا اور پہلی مرتبہ اقتدار کے پہلے چار سال مکمل ہونے سے قبل اُنہیں اگر پارلیمان کے ایوان سے ’عدم اعتماد‘ کا سامنا کر پڑ جاتا ہے تو یہ قطعی غیرمعمولی بات ہوگی۔ سردست حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو اپنی اپنی حمایت میں 172 اراکین کی حمایت درکار ہے۔ ایک کے لئے ایسا اِس لئے ضروری ہے تاکہ وہ حکومت میں رہ سکے اور دوسرے فریق (حزب اختلاف) کے لئے یہ اِس لئے ضروری ہے تاکہ وہ تحریک انصاف کا اقتدار ختم کر سکے۔ ایسی صورت میں یعنی کامیابی کے بعد (حسب آئین) صدرِ پاکستان قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔
 آئین یہ بھی کہتا ہے کہ اگر صدر مملکت تحریک عدم اعتماد کی کامیاب کے بعد وزیرِ اعظم کو اُس وقت تک بطور وزیراعظم ہی کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں جب تک کسی نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب نہیں ہو جاتا تاہم اس عرصے کے دوران وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں رکھیں گے۔ آئین کے مطابق صرف منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کر دے جس کے بعد عام انتخابات ہوتے ہیں اور اُس وقت تک کیلئے ایک نگران حکومت قائم کی جاتی ہے یعنی ایک عبوری دور ہوتا ہے جو عام انتخابات سے نئی حکومت کے قیام تک کام کرتی ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال میں جس یقین (اعتماد) اور غیریقینی (عدم اعتماد) کے چرچے و خرچے ہو رہے ہیں‘ اُس سے عام آدمی (ہم عوام) کا کوئی تعلق نہیں بلکہ اِس گومگو کی کیفیت میں قومی سلامتی پر وار کرنے والوں کو موقع مل گیا جس کا ایک نتیجہ پشاور میں مسجد پر دہشت گرد حملہ ہے۔ اگر کوئی یہ پوچھے تو کیا جواب ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین اپنی تمام تر بصیرت اور تجربے کا استعمال کرتے ہوئے کیوں ایسا ماحول تخلیق نہیں کرتے جس میں جمہوریت کے دو لازمی جز یعنی حزب اقتدار اور حزب اختلاف قومی سلامتی اور خوشحالی کیلئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ یعنی صرف اور صرف پاکستان کی ترقی (روشن مستقبل) کیلئے کام کریں؟