اس وقت ملک کو پانی اورسستی توانائی کی قلت کاسامناہے ماضی میں کسی بھی حکمران نے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی جنرل ایوب خان کے بعدسے اس معاملہ پر کسی قسم کی پیشرفت نہیں ہوسکی چار عشرے ہم نے یونہی ضائع کردیئے جس کی وجہ سے ایک طرف ہم اپنے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے دوسری طرف توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مہنگی تھرمل بجلی پر انحصار کرنا پڑا جس کی وجہ نہ صرف گھریلو صارفین مشکلات کاشکار ہیں بلکہ صنعتی ترقی کا خواب بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے ساتھ ہی ملک کی آبادی میں تیز ی اضافہ بھی ہوتاجارہاہے چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مْلک میں پن بجلی کی پیداوار کوبڑھایا جائے۔ اْس کے ساتھ ساتھ مْلک میں پانی کا ذخیرہ بڑھانے کے لئے بھی نئے ڈیمز کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت تقریباً 90 فیصد پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہئے کہ اس نے تقریباً 30 سال کے بعد مْلک عزیز میں نئے ڈیمز اور پن بجلی کے عظیم منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ اور اس دہائی 2018سے2028 کے دوران دس عظیم منصوبوں کی تعمیر کا پروگرام بنایا۔اوراس کو ڈیمز کی دہائی کانام دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں کے اختتام پر مْلک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 13.6 ملین ایکڑفٹ سے بڑھ کر 80 فیصد اضافے کے ساتھ 25.3 ملین ایکڑ فٹ ہو جائے گی۔ جس سے تقریباً 30لاکھ ایکڑ اضافی زمین سیراب کی جاسکے گی جو مْلک میں زرعی انقلاب کا بیش خیمہ ثابت ہو گا اور اس سے علاقے کی سماجی اور معاشی ترقی میں انقلاب برپا ہوگا۔ پانی کے ان ذخائر سے شہری پانی کے لئے روزانہ 95کروڑ گیلن پانی مہیا کیا جائے گا جو ملک کی بڑھتی آب رسانی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مثالی ثابت ہوگا۔ ان پراجیکٹ میں دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم داسوہا ئیڈرو پاور پراجیکٹ،تا کرم تنگی ڈیم،نائی،، ہارپو پاور پراجیکٹ شامل ہیں اگر بھاشادیامر ڈیم کی بات کریں تو یہ ڈیم اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑ اکنکریٹ رولر ڈیم سمجھاجاتا ہے یہ ڈیم دریا ئے سندھ کے اوپر چلاس سے 7کلومیٹر کے فاصلے پر بھاشا کے مقام پر تعمیر ہورہاہے جس میں تقریباً 80لاکھ ایکڑمنٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس سے تقریباً 4800 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ اسکی تعمیر سے تربیلاڈیم میں ریت جمع ہونے کے عمل میں کمی کی وجہ سے اس کی کار آمد زندگی میں بھی 35سال کا اضافہ ہوجائیگا تاہم اس کی تکمیل کے لئے مزید دس سال اور سرمایہ کاری درکار ہے ماضی میں جب کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بوجوہ متنازعہ بن گیا تو خیبرپختونخوا کی قوم پرست جماعتوں نے بارہا بھاشا ڈیم کی تعمیر کامطالبہ کیا مگراس وقت حکمران بھی میں نہ مانو ں کی حکمت عملی پر عمل پیر ا تھے چنانچہ نہ تو کالا باغ ڈیم بن سکا نہ ہی غیر متنازعہ بھاشاڈیم کی تعمیر پر توجہ دی گئی جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے بھاشاڈیم کے ساتھ ساتھ داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ بھی اہمیت کاحامل ہے یہ داسو سے چلاس کی طرف 7کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ دیامر پراجیکٹ سے کافی فاصلے پر دریائے سندھ پر بنایا جارہاہے۔جس سے تقریباً 4320 میگاواٹ پن بجلی پیدا ہوگی۔ اس کے پہلے مرحلے میں 6یونٹس کے ذریعے 2160میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی، جبکہ اگلے مرحلے میں اسکی گنجائش دوگنی کی جائیگی،یہ ڈیم اگلے چار سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔ اسکا تخمینہ لاگت تقریباً 510 ارب روپے ہے۔ جس میں 218 بلین کا زرمبادلہ بھی شامل ہے سکی کناری ڈیم پر بھی تیزی کا م جاری ہے یہ خیبر پختونخوا کی وادی کاغان میں سی پیک منصوبہ کے تحت بنایا جارہاہے جس سے ملک کو اضافی بجلی حاصل ہوسکے گی خیبرپختونخوا میں ہی مہمند ڈیم پر بھی کام شروع کیاجاچکاہے اس کا پْرانا نام مْنڈا ڈیم ہے۔ جو دریائے سوات کے اْوپر پشاور سے شمال کے جانب 37 کلو میڑ کے فاصلے پرقبائلی ضلع مہمند میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس کی تعمیر سے 740 میگاواٹ پن بجلی کے علاوہ 15000 اراضی سیراب ہو گی۔اس کی تعمیر سے مجموعی طور پر 5 ارب کیوسک پانی ذخیرہ ہوگا۔ تقریباً 20 ارب بجلی کی پیداوار اور تقریباً 8 کروڑ روپے سیلاب سے بچاؤ کی مد میں حاصل ہوں گے۔ یہ پتھراور کنکریٹ سے بنایا جائے گا اور اس کی تعمیر کے بعد خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگااور تفریح کے مواقع فراہم ہوں گے ڈیموں ہی تعمیر کی بات ہوتو گلگت بلتستان میں ہارپو پاور پراجیکٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتادریائے سندھ کے بائیں حصے سکردو سے شمال مغرب کی طرف 75 کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر ہو رہا ہے۔ جس سے تقریباً 34 میگاواٹ بجلی فراہم ہو گی۔ یہ منصوبہ اگلے تین سالوں میں مکمل ہو گا۔ اس کا تخمینہ لاگت ساڑھے نو ارب روپے ہے۔ جسمیں تقریباً 6 ارب روپے کا زرمبادلہ بھی شامل ہے۔اسی طرح خیبرپختونخوا میں کْرم تنگی ڈیم کی تکمیل بھی قریب ہے یہ کثیر المقاصد ڈیم شمالی وزیرستان میں تعمیر ہو رہا ہے۔ جس سے 83 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے علاوہ 16 ہزار اراضی کی سیرابی بھی ہوسکے گی بلکہ یہاں تک کہاجارہاہے اس سے لکی مروت کی لاکھوں ایکڑ اراضی بھی سیراب ہوسکے گی جس سے زرعی انقلاب کی راہ ہموار ممکن ہونے میں مدد مل سکے گی‘ملک میں ہائیڈر وپاور کے ان میگا پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ مْلک کے اندر معاشی اور سیاسی استحکام ہو۔ امن وامان کی صورت حال بہتر ہو اور مْلکی خزانے میں ان کی ادائیگی کے لئے بروقت زرمبادلہ موجود ہو۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کی تکمیل کے بعد برپا ہونے والے نئی صنعتی انقلاب کو ممکن بنانے کے لئے ضروری ہے کم ازکم ڈیموں کی تعمیر کے معاملہ پر وسیع تر قومی اتفاق رائے ہوناچاہئے اس حساس ایشو کو سیاست نذر کرنے سے بچانا ضرور ی ہوچکا۔