عوامی مارچ 

 پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹرنز کا ”لانگ مارچ“ بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سیاست کے دانت کھانے اور دکھانے کے الگ الگ ہوتے ہیں اور اگر اِس زاویئے سے مبینہ ’عوامی مارچ‘ کو دیکھا جائے کہ جس نے ستائیس فروری کے روز کراچی سے اپنا سفر شروع کیا تھا‘ تو ظاہر اور درپردہ سیاسی مقاصد یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ حسب منصوبہ بندی (پلان) دس روزہ ’عوامی مارچ‘ کا اختتام آج (آٹھ مارچ بروزمنگل) اسلام آباد میں ہوگا جس کے بعد ایک بڑے سیاسی اجتماع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کے لئے خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں سے بھی کارکنوں کو مدعو کیا گیا ہے اور یہ بالکل اُسی طرح کا منظرنامہ ہوگا جس طرح تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ آج پیپلزپارٹی سیاسی تاریخ کو دہرا رہی ہے۔ مارچ دوہزاراٹھارہ کی انتخابی مہم کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے منعقد کی جانے والی یہ (عوامی مارچ) سب سے بڑی سیاسی سرگرمی ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ دسمبر دوہزارسات میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی یہ سب سے بڑی رابطہ عوام (موبلائزیشن) بھی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد آئندہ عام انتخابات کے لئے ماحول اور عوامی رائے کو پیپلزپارٹی کی طرف متوجہ کرنا ہے پیپلز پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لئے یہ وقت قطعی سازگار نہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی حکومت کو ہٹانے کے لئے اِس طرح کے عوامی مارچ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اِس کے لئے ایک بالکل مختلف قسم کی عوامی تحریک چاہئے ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر ’عوامی مارچ‘ نے اب تک انتہائی ’متاثر کن‘ طاقت کا مظاہرہ کیا ہے جو حکومت کیلئے ایسا چیلنج ہے جس سے آنے والے دنوں میں نمٹنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ’پیپلزپارٹی کے عوامی مارچ‘ پر اسلام آباد کے دروازے بند کرنے سے اِسے زیادہ فائدہ اور حکومت کو زیادہ نقصان ہوگا لیکن یہ مرحلہ بھی آسان نہیں کیونکہ تحریک انصاف واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے انتہائی مختصر (ریکارڈ) عرصے میں پورے ملک میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے اور کسی نہ کسی صورت ہر صوبے اور ضلع کی سطح پر تحریک موجود ہے۔ اگر تحریک پیپلزپارٹی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کو جواب دینا چاہے جو کہ حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں تو اِسے بھی کم سے کم بڑے شہروں میں ہزاروں افراد کو متحرک کرنا پڑے گا لیکن جہاں احتجاج ہوں وہاں حکومتی کام مفلوج ہو جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی فیصلہ سازی میں بلاول بھٹو زرداری کی سمجھ بوجھ کا عمل دخل انتہائی کم ہے لیکن وہ اپنی پارٹی کے پس پردہ فیصلہ سازوں کے مؤقف کو پوری قوت اور کامیابی سے پیش کر رہے ہیں اور اپنی کئی ایک تقاریر میں واضح کر چکے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹایا جائے گا۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار سے ہٹانے کا عمل ملک بھر میں حقیقی عوامی تحریک کے بغیر ہو گا جبکہ عوامی تحریک وہ ہوتی ہے کہ جس میں مزدور‘ کسان‘ چھوٹے کسان‘ نوجوان‘ چھوٹے تاجر اور خواتین سمیت عام لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی بنیادی طور پر لہو گرم کر رہی ہے وہ اپنے صوبائی اور ضلعی رہنماؤں اور کارکنوں میں کچھ توانائی اور نیا جذبہ پیدا کرنا چاہتی ہے  تاکہ انتخابی مقابلہ کرنے کیلئے رہنماؤں اور کارکنوں میں اعتماد و امید پیدا کی جا سکے۔ پیپلزپارٹی جذبات پر یقین نہیں رکھتی۔ اِس کے ہاں انتخابات ایک سائنس اور ریاضی کا مضمون ہے‘ جس میں  ہر قسم کے ووٹ اہمیت رکھتے ہیں اور ہمیشہ یہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ عوامی مارچ کا دوسرا مقصد پیپلزپارٹی کی تنظیم کو اگلے عام انتخابات کے لئے تیار کرنا ہے تو یہ ہدف بھی عوامی مارچ کے مکمل ہونے سے پہلے ہی بڑی حد تک حاصل کر لیا گیا ہے۔ پنجاب کے گزشتہ دو ضمنی انتخابات کی بات کی جائے تو اور خیبرپختونخوا کے سترہ اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کو دیکھا جائے تو دیگر جماعتوں کے مقابلے پیپلزپارٹی کی تنظیمی کمزوریاں (غلط فیصلے) زیادہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امن و امان کی غیریقینی صورتحال کے باوجود پیپلز پارٹی ’عوامی مارچ‘ کا رسک لیا اور اِسے عام انتخابات سے قبل پارٹی ڈھانچہ منظم و متحرک اور فعال کرنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی ہے۔ آئندہ عام انتخابات کا منظرنامہ انتہائی واضح ہو چکا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان دلچسپ مقابلہ ہوگا جبکہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے خود کو تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں الجھا رکھا ہے اور وہ ایک ناممکن کو ممکن بنانے میں اپنے سیاسی و انتخابی مقاصد کو پس پشت ڈال بیٹھے ہیں۔ وقت ثابت کرے گا کہ پیپلزپارٹی نے عوامی مارچ کی صورت کتنا درست فیصلہ کیا اور اِس نے اپنا کھویا ہوا ووٹ بینک واپس لینے کی کتنی سنجیدہ کوشش کی ہے۔