شاعر کفی صدیقی نے کہا تھا ”دیکھ کے تیری جہد مسلسل……چھٹ گئے خود ہی دکھ کے بادل“ اور یہ شعر پاکستان میں خواتین کی جہد مسلسل کی تعریف و تعارف کا جامع احوال ہے۔ ’صنف ِنازک‘ سے ’صنف ِآہن‘ تک کے سفر میں پاکستان کی خواتین نے ’رکاوٹوں کے باوجود‘ ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس سے لیکر انتظامی شعبہ جات اور قومی سیاست میں شمولیت (حصہ داری) تک خواتین ہر محاذ پر ڈٹ کر اپنے وجود اور بقا کے ہر ایک امتحان میں سرخرو ہیں۔ خواتین کے عالمی دن سال 2022ء کے لئے عالمی عنوان ”تعصب مٹا دو (Break the Bias)“ مقرر کیا گیا ہے اور یہ قطعی آسان نہیں کہ خواتین تن تنہا تعصب مٹا سکیں گی جب تک کہ اُنہیں معاشرے اور گھر کی چاردیواری میں حوصلہ افزائی نہ ملے۔ اِس حوصلہ افزائی ہی کے ذریعے صرف خواتین ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر افراد بھی صنفی تفریق کی بنیاد پر تعصبات ختم کر سکتے ہیں جو صرف خواتین ہی کیلئے نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کیلئے ضروری ہیں۔ اصولاً عالمی دن کا یہ عنوان اِس قدر وسیع المعانی ہے کہ یہ کسی ایک طبقے (خواتین) کا احاطہ نہیں کرتا بلکہ معاشرے کے ہر فرد (ہر اکائی) کو تعصب سے خطرہ ہے۔ یہ تعصب انتخابات میں ذات برادری‘ نسلی لسانی قبائلی ترجیحات کی صورت دکھائی دیتا ہے تو کہیں اِس کے لئے دیگر وجوہات سامنے آتی ہیں۔ تو کیا واقعی دنیا تعصبات سے کنارہ کشی اختیار کرے گی! اس منظرنامے میں ’یوم خواتین‘ کے موقع پر بنیادی سوال یہ ہے کہ اِن حالات میں خواتین کو کیوں اِس بات کی پرواہ کرنی چاہئے؟ خواتین سماجی طور پر مشروط ہیں کہ وہ دیکھ بھال کے کام کی خواہش کریں۔
انہیں جذبات کے ایک دلچسپ اور اکثر متضاد مرکب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے خاندان کے تئیں محبت کا احساس‘ فرض یا ذمہ داری کے خیال رکھتے ہوئے ایک درمیانی اور متوازن راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ کچھ خواتین‘ اکثر شادی شدہ‘ خاندانی دباؤ کی وجہ سے اضافی بوجھ اٹھاتی ہیں۔ اہل خانہ بلکہ کئی مثالوں میں پورے خاندان کی نگہداشت کا کام اس وقت بھی ادا کر رہی ہوتی ہیں جبکہ اِس کے معاوضے (صلے) میں اِن کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ غیرسرکاری عالمی تنظیم اُوکس فیم (Oxfam) کی جانب سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق خواتین عالمی معیشت میں سالانہ دس کھرب ڈالر کی شراکت دار ہیں اور اگر خواتین نہ ہوں تو معیشت کی نبض رک جائے۔ یہ خواتین زراعت (کھیتوں) سے لیکر دفاتر اور گھر سے لیکر ہوائی میزبانی (ائرہوسٹس) تک اپنے کام میں مگن دکھائی دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عالمی معیشت میں اِن کی شراکت کو دس کھرب ڈالر جیسی بڑی شراکت داری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پاکستان کی صورتحال اور تناظر میں دیکھا جائے تو خواتین کے لئے علم حاصل کرنے کے مواقع کم ہیں۔ اِن کی بڑی تعداد ایسی ہے جو مختلف وجوہات کی بناء پر تعلیمی اداروں میں داخل تو ہوتی ہیں لیکن تعلیم مکمل کئے بغیر تعلیمی اداروں سے الگ ہو جاتی ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کی صورت بھی بمشکل تیس فیصد خواتین ہی عملی زندگی میں کوئی ملازمت کرتی ہیں لیکن یہ سوچ بڑی حد تک تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستان میں کھانے پینے (مصالحہ جات بنانے والے) ایک معروف برانڈ نے اپنی حالیہ تشہیری مہم میں تعلیم یافتہ‘ ہنرمند اور کام کاج کرنے والی خواتین کے حوالے سے مثبت پیغام رسانی کو فروغ دیا ہے جس کا پیغام انتہائی اہم اور حساس اور اِس پر غور سے زیادہ غور ہونا چاہئے۔ خواتین سے متعلق ”ثقافتی اور سماجی تصورات“ زیادہ سخت یا تلخ نہیں۔عالمی دن کا پیغام ہے کہ صنفی امتیازات اور تعصبات کو ہوا دینے والے عناصر کی شناخت کی جائے اور اِن امتیازات و تعصبات کے دلائل پر غور کیا جائے‘ جو بگاڑ و تخریب کا باعث ہیں۔