پاکستان کے داخلی چیلنجز روس اور یوکرائن کی جنگ اگر زیادہ نہیں تو یکساں شدید اور قطعی طور پر کم اہم نہیں ہیں۔ روس کی فوج کشی کے منفی پس منظر میں حزب اختلاف کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی ٹائمنگ پر اعتراض ہو سکتا ہے تاہم یہ ایک جمہوری عمل ہے جو کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں جمہوریت کی کامیابی ہے کیونکہ آئینی طریقے سے کسی بھی حکومت کا بننا یا اسکا ختم ہونا دونوں وہ عوامل ہیں جو جمہوریت کا حصہ ہیں اس حوالے سے حزب اختلاف نے جو بہتر سمجھا وہ پالیسی اپنائی اور حکومت بھی اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرے۔آئندہ قومی پارلیمانی انتخابات اپنے مقررہ وقت یعنی دوہزارتیئس سے پہلے ہو جائیں تب بھی پاکستان کا سیاسی عدم استحکام اور مہنگائی ختم نہیں ہوں گے۔ مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر کون کون سے خطرات منڈلا رہے ہیں یہ بات پشاور کی ایک جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہوئے خودکش حملے (دہشتگردی) سے بڑی حد تک واضح ہو چکا ہے اور اِس مرحلے پر کوئی معمولی سی بھی غلطی بہت بڑے فساد کا باعث بن جائے گی۔
اصولاً دیکھا جائے تو پاکستان نے افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد عالمی سطح پر افغان مقدمہ لڑا ہے تاکہ یہ ملک اپنے پاؤں پرکھڑا ہو سکے لیکن افسوس کہ افغانستان کی سرزمین اور اِس کے وسائل آج بھی مبینہ طور پر پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا سلسلہ جاری ہے افغانستان کی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے سرزمین اور وسائل کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے دوسری قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی روس یوکرائن معاملے میں نہ الجھنے کے فوائد بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہوں گے کیونکہ چین پاکستان اور روس ایک قطار میں کھڑے ہیں اور اِسے وزیراعظم کی کامیابیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہئے لیکن اِس سلسلے میں حزب اختلاف کا تعاون حکومت کو حاصل نہیں حالیہ چند روز میں جب بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں سیاسی کارکنوں کا ایک جلوس وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کیلئے کراچی سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا‘ تو اُس وقت پاکستان کی سیاست میں ایک اور خلا بہت واضح دکھائی دے رہا تھا جسے معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقات کے نکتہ نظر اور مالی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی معاشی پالیسیاں بنائی جائیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں چہروں کی تبدیلی سے پاکستان کے وسائل کی بچت نہیں بلکہ اِن کی تقسیم میں پائی جانے والی خرابیاں مزید عیاں ہو جائیں گی اور تب نئی حکومت موجودہ حکومت کی طرح ماضی کے حکمرانوں کو دہائیاں دے رہی ہوگی۔ جس ملک میں حکومت اور عوام اور حکومت و حزب اختلاف کے درمیان اعتماد کا فقدان ہو کیا وہاں بیرونی سرمایہ کاری آئے گی؟ یہ المناک رجحانات ہیں جن کا علاج کارکردگی پر عدم اعتماد نہیں بلکہ کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے اعتماد‘تعاون میں اضافے سے ممکن ہے بصورت دیگر ’منفی پس منظر‘ مثبت پس منظر پر حاوی رہے گا۔