جائیداد کی خریدوفروخت‘ کوائف کی تبدیلی یا سرکاری دستاویزات میں کسی بھی قسم کے ردوبدل کیلئے لازم ہے کہ حکومت کے جاری کردہ ’سٹامپ پیپر‘ کا استعمال کیا جائے۔ اِن سٹامپ پیپرز کا اجرأ ’حکومت ِپاکستان‘ کی طرف سے کیا جاتا ہے اور کسی بھی تحریر کے آئینی و قانونی ہونے کے لئے لازم ہوتا ہے کہ وہ خاص مالیت کے سٹامپ پیپرز پر تحریر کی گئی ہو جبکہ سٹامپ پیپر کے مقابلے میں سادہ کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ ”سٹامپ پیپر ایکٹ 1899ء“ کے ’سیکشن 3‘ کے تحت جاری کئے جاتے ہیں اور اِن کی بالخصوص ضرورت قانونی چارہ جوئی (مقدمات) میں ہوتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عمومی کاموں کے لئے ’بیان حلفی‘ بھی سٹامپ پیپرز ہی پر تحریر کئے جانے لگے ہیں جیسا کہ تعلیمی اداروں میں داخلوں سے قبل سٹامپ پیپر پر اِس بات کا بیان حلفی لازماً جمع کروانے کا کہا جاتا ہے کہ اگر بچے یا بچی کو داخلہ نہ دیا گیا تو داخلے کے درخواست گزار سکول انتظامیہ کے اِس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع نہیں کریں گے۔ اصولاً دیکھا جائے تو سکولوں کی انتظامیہ اہلیت (میرٹ) اور قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے داخلے دیتی ہے تو اسے اپنے خلاف عدالت میں قانونی چارہ جوئی سے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ سٹامپ پیپر بظاہر کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے جس کی قیمت قومی خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ اِس مقصد کے لئے مستند سٹامپ نویس مقرر کئے جاتے ہیں جنہیں سٹامپ پیپرز کی فروخت پر چار سے پانچ فیصد معاوضہ (بطور کمیشن) دیا جاتا ہے۔ سٹامپ پیپر حاصل کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ اُس پر تحریر یا فوٹوسٹیٹ کے ذریعے تحریر منتقل کرنے کا ہوتا ہے جس کی الگ سے قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ اِس کے بعد ’سٹامپ پیپر‘ کی نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی جاتی ہے اور اِس مرحلے کی بھی الگ سے ”منہ مانگی“ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
اوسطاً 100 روپے کے ایک ’سٹامپ پیپر‘ کی مالیت جملہ اخراجاتی مراحل سے گزر کر ’پانچ سو روپے‘ تک جا پہنچتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’سٹامپ پیپرز‘ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جوڈیشل اور دوسرے نان جوڈیشل سٹامپ پیپر۔ عدالتی کاروائیوں کیلئے جوڈیشل سٹامپ پیپر جبکہ نان جوڈیشل دیگر عمومی استعمال کیلئے ہوتے ہیں جیسے اگر دو فریقین کے درمیان کاروباری لین دین یا کرایہ نامہ یا حلف نامہ وغیرہ کے لئے نان جوڈیشل سٹامپ پیپرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ سٹامپ پیپر کا اجرأ ہونے کے بعد ’6 ماہ‘ تک اِس پر کوئی بھی تحریر کروائی جا سکتی ہے لیکن ’سٹامپ ایکٹ 1899ء‘ میں وقت کی ایسی قید مذکور نہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات بھی معلوم ہو گی کہ اگر وہ ’سٹامپ پیپر‘ حاصل کریں اور اُس پر کچھ بھی تحریر نہ کریں تو ایسے سٹامپ پیپرز واپس بھی کئے جا سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے روایتی سٹامپ پیپرز سے متعلق عوامی شکایات کے ازالے کے لئے ”اِی سٹامپنگ (E-Stamping)“ شروع کی گئی ہے‘ جس کے ذریعے خاص قیمت کی ادائیگی پر کوئی بھی شخص آن لائن سٹامپ پیپر خرید سکتا ہے اور اِس مقصد کیلئے ایک مرکزی تصدیقی نظام بنایا گیا ہے‘ جس میں سٹامپ پیپر کیلئے درخواست گزار کے کوائف کی فوری جانچ پڑتال کرنے کے بعد اُسے ’اِی سٹامپ‘ جاری کیا جاتا ہے اور اِس سلسلے میں ایک موبائل فون ایپ کا اجرأ بھی کیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا کو صوبہ پنجاب میں اصلاحات پر نظر رکھنی چاہئے جہاں جائیداد کی خریدوفروخت کیلئے ’سٹامپ پیپرز‘ کے استعمال کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہاں سادہ کاغذ پر لکھی ایک درخواست کے ذریعے جائیداد سے متعلق کوائف میں تبدیلی کی جاتی ہے کیونکہ بائیومیٹرک پر مبنی ’آن لائن‘ کے تصدیقی نظام میں درخواست گزار کی تصویر بھی محفوظ کر لی جاتی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے سٹامپ پیپرز ختم کرنے سے سالانہ ایک ارب روپے کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو سٹامپ پیپرز شائع کرنے پر خرچ کی جاتی ہے جبکہ سٹامپ پیپرز کی صورت حکومت کو حاصل ہونے والی آمدنی دیگر مدوں میں شامل کر دی گئی ہے یعنی حکومت کو سٹامپ پیپرز شائع نہیں کرنا پڑیں گے لیکن قانونی دستاویزات کے تصدیقی مراحل کی صورت اِن کی آمدنی برقرار رہے گی۔جمہوری طرزحکمرانی میں فیصلہ ساز عام آدمی کو درپیش مشکلات کو آسانی سے تبدیل کرتے ہیں۔ اِس اصول (کسوٹی) کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت کو چاہئے کہ برتھ‘ ڈیتھ سرٹیفیکیٹ‘ نکاح (شادی بیاہ) اور سکول داخلہ وغیرہ جیسے عمومی کاموں کیلئے لازمی قرار دیئے گئے سٹامپ پیپر کی شرط ختم کرے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 100 روپے یا اِس سے کم مالیت کے سٹامپ پیپرز گزشتہ کئی مہینوں سے دستیاب نہیں اور کم سے کم سٹامپ پیپر حاصل کرنے کیلئے پانچ سو روپے ادا کرنا پڑتے ہیں جو ایک عام آدمی کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔