خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔دونوں شعبوں کے بجٹ میں تقریباً سو فیصد اضافہ کیاگیا ہے۔ زیرتربیت نرسوں کا وظیفہ پانچ ہزار سے بڑھاکر بیس ہزار کردیاگیا۔ ہاؤس افسروں کی تنخواہ پچیس ہزار سے بڑھا کر ستر ہزار کردی گئی دیہی علاقوں کے بنیادی صحت مراکز اور دیہی صحت مراکز میں خدمات انجام دینے والوں کی تنخواہ ساٹھ ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کردی گئی۔ پشاور کے سرکاری ہسپتالوں کی عمارتوں کو جدید بنایاگیا ہے اور صحت و صفائی کے انتظامات بھی قابل ستائش ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس شعبے میں دور رس اہمیت کے حامل اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں۔تاہم دوسری طرف تعلیم کے شعبے میں نمایاں تبدیلی نظر نہیں آرہی اگر چہ یہاں پر بھی حکومت کی طرف سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔تمام سکولوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کیلئے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرایاگیا اور مانیٹرنگ ٹیمیں بھی سکولوں کے دورے کرکے سٹاف کی حاضری کو یقینی بنارہے ہیں لیکن سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر ہوتا دکھائی نہیں دیتا حالیہ سروے کے مطابق صوبے میں 40 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے، ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بھی سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد 30 لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیم کے شعبے پر 2017-18 میں 136 بلین،2018-19 میں 145 بلین سے زائد، 2019-20 کے دوران 166اور گزشتہ سال 2020-21 میں 183 بلین روپے بھی خرچ کئے اس کے باوجود ابھی بڑی تعداد میں سکول بجلی، صاف پانی، چاردیواری،بنچ، ڈیسک اور بیت الخلاء کی سہولیات سے محروم ہیں۔
صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں 74 فیصد لڑکیاں اور 38 فیصد سے زائد لڑکے سکول نہیں جارہے،حالیہ سروے کے مطابق ضلع کولئی پالس میں 77 فیصد،اپر کوہستان 70 فیصد،لوئرکوہستان 69،شمالی وزیرستان 66،باجوڑ63،تورغر61،شانگلہ 55،لکی مروت 53،مہمند 51،کرم اوراورکزئی میں 47،ڈی آئی خان 46،ہنگو اوربنوں میں 47،پشاور44 اور مردان میں 28 فیصد بچے سکولوں سے باہرہیں،سروے کے مطابق صوبے میں 65 فیصد سے زائد والدین معاشی حالات اور مہنگائی کے باعث بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ سکول نہ جانے والے بچوں میں 12 فیصد محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کررہے ہیں۔آج بھی صوبے کے بعض علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے،سکول جانے والے اکثر بچیوں کو پرائمری کے بعد سکولوں سے اٹھایاجاتا ہے۔سکول میں داخل ہونے والی بچیوں میں سے پچیس تیس فیصد ہی میٹرک تک تعلیم حاصل کرپاتی ہے اس کے بعد صرف دس،پندرہ فیصد بچیوں کو کالج اور یونیورسٹی جانے کی اجازت مل پاتی ہے۔
جن علاقوں میں بچیوں کو سکول نہیں بھیجاجاتا وہاں دوسرے اضلاع کی تعلیم یافتہ لڑکیاں لیڈی ڈاکٹر، سٹاف نرس، ایل ایچ وی، ہیلتھ ٹیکنیشن، ٹیچر اور دیگر اسامیوں پر تعینات ہیں۔ ان کی خدمات سے استفادہ کرنے والوں کو بھی اپنی بچیوں کو تعلیم دینے اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور ملک و قوم کی خدمت کے قابل بنانے کی بات کیوں سمجھ نہیں آتی۔ حکومت سکول اور ہسپتال بناسکتی ہے وہاں سٹاف تعینات اور سہولیات مہیاکرسکتی ہے۔بچوں کو گھروں سے زبردستی اٹھا کر سکول نہیں لاسکتی۔ سرکاری سکولوں میں درسی کتب اور سٹیشنری کے علاوہ یونیفارم بھی مفت دیا جاتا ہے اور بچیوں کو وظائف بھی دیئے جاتے ہیں۔اس لئے یہ بہانہ بلاجواز ہے کہ تنگدستی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔یعنی ایک طرح سے حکومت پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ تو اپنی حد تک پوری کررہی ہے تاہم جہاں تک معاشرے اور والدین کی ذمہ داری ہے تو اس میں کوتاہی برتی جار ہی ہے اور حکومت کی طرف سے خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود اگر مہیا سہولیات سے استفادہ نہیں کیا جارہا تو اس میں قصور ا ب کس کا ہے۔تعلیم کا حصول انسان کی بنیادی ضرورت اور حق ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے موجودہ دور میں تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کی منزل نہیں پاسکتی۔