عالمی یوم نسواں 


پاکستان سمیت دنیابھر میں عالمی یوم نسواں گزشتہ روزمنایا گیا۔ پاکستانی خواتین کو تین سال پہلے معلوم ہوا کہ ان کا کوئی عالمی دن بھی ہوتا ہے‘2018 ء میں صرف کراچی میں خواتین نے ریلی نکالی‘ اگلے سال لاہور، ملتان، فیصل آباد، لاڑکانہ اور حیدرآباد میں بھی خواتین کی طرف سے ریلیاں نکالی گئیں تاہم ان ریلیوں میں بعض نعروں پرمردوں کے ساتھ ساتھ بعض خواتین نے بھی کافی اعتراضات کئے۔اس بار ملک کے مختلف شہروں میں مختلف نعروں کے ساتھ عورتوں کی ریلیاں نکلیں۔کراچی میں مارچ کے ذریعے خواتین کی تنخواہوں، تحفظ اور امن پر توجہ مبذول کروائی گئی۔ لاہور میں انصاف کی فراہمی اور ملتان میں تعلیم، سکیورٹی اور آزادی کے نئے تصور کے مطالبات پیش کئے گئے۔یوم نسواں پر صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء، صوبائی گورنرز، وزرائے اعلیٰ نے بھی پیغامات جاری کئے اور خواتین کے ساتھ ہمدردی اور یک جہتی کا اظہار کیا گیا اس کے علاوہ بھی مختلف پیغامات کا خلاصہ رہا کہ خواتین ہماری ملکی آبادی کے نصف سے زائد ہیں، انہیں نظر انداز کرکے ملک ترقی نہیں کر سکتا، خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے

بلکہ انہیں ایسا بہترین ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ قومی دھارے میں شامل ہوں۔ خواتین گھروں،کھیتوں،دفاتر، سیاست اور کھیل کے میدانوں میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں اکثر اوقات ان کی صلاحیتوں اور کردار کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔یہ مجرب فارمولہ ہے کہ اگر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے تو ان کی کارکردگی کو چارچاند لگ سکتے ہیں‘اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت‘ماں‘بیٹی‘بہن‘ بیوی‘ خالہ‘ پھوپی‘ممانی سمیت ہر رشتے میں قابل احترام‘ عقیدت‘ محبت اور شفقت کی علامت ہے۔ ساس‘ سوتن اور سوتیلی ماں ہونے کے ناطے اس کے کردار پر کچھ لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن یہ عورتوں کا باہمی جھگڑا ہے۔

ہر رنگ و نسل، زبان، قومیت کی خواتین کی خصوصیات مشترک ہوتی ہیں۔وہ زبان کی کچی ہونے کے باوجود دل کی سچی اوربہت نرم خو ہوتی ہیں۔خواتین کی انہی بے شمار خصوصیات سے متاثر ہوکر مولانا الطاف حسین نے ان کے حوالے سے پوری نظم لکھ ڈالی انہوں نے خواتین کو دنیا کی عزت، ملکوں کی بستی، قوموں کی ناموس، گھر کی شہزادیاں، شہروں کی آبادیاں، دکھ سکھ میں راحت کا سامان، جینے کی حلاوت، نیکی کی تصویر، عفت کی تدبیر، دین کی پاسبان، صبرورضا کی پیکر، شوہروں کی مونس، بچوں کی غم خوار،گھروں میں برکت کا ذریعہ، بیمار کی آس، بیکار کی ڈھارس اور نادار کی دولت قرار دیا ہے۔ان باتوں کو شاعر کا تحیل قرار دے کر یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ خواتین میں عام تاثر یہ ہے کہ مردوں کے معاشرے میں انہیں دوسرے درجے کی شہری کی حیثیت دی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ محض الزامات ہیں۔

عورت گھر کی مالکن ہے۔ مرد بیچارہ دن رات پونجی جمع کرنے میں لگارہتا ہے اور وہ ساری پونجی لٹاکر بیوی کی صورت میں ایک عورت کو گھر میں بیاہ کرلاتا ہے اور پھر سارے گھر اور خود کو بھی اس کے سپرد کردیتا ہے۔ دنیا بھر میں مردوں کی شاعری کا مرکزی خیال ہی عورت کی ذات ہوتی ہے۔ ہر سال اس کا عالمی دن دنیا بھر میں منانے کا اہتمام بھی مرد ہی کرتے ہیں۔آج تک سال کے 365دنوں میں سے ایک دن بھی مرد کے نام نہیں کیاگیا۔