واقعی بعض اوقات سب کچھ لمحات میں ہوجاتاہے چہروں پر لگے منافقت کاخول فوری ہی اتر جاتاہے اورپھربھیانک چہرے سامنے آجاتے ہیں آج کل یہی کچھ انسانیت کے نام پر دنیا کو اپنی بالادستی کادرس دینے والے یورپ کے ساتھ ہورہاہے اس وقت کم وبیش بیس لاکھ یوکرائنی باشندے یورپ کے کئی شہروں میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ یورپ کے شہروں نے ان کا استقبال بھی کیا ہے۔ کرنا بھی چاہئے۔یہی انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور یہی سفید فامیت کا بھی تقاضا ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ یوکرائن کی چند روزہ جنگ میں دنیا نے وہ نظارے تو دیکھے جو اسی صدی میں عراق، شام، فلسطین اور افغانستان میں دیکھے جا چکے تھے۔ وہی عمارتوں کا کھنڈروں میں تبدیل ہونا، وہی خلق خدا کی آہ و بکا، وہی لاکھوں بے سروسامان مردوں، عورتوں اور بچوں کا زندگی اور امن کی تلاش میں اپنے گھر اور وطن چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہونا۔ کوسوویاد کیجئے،بغداد یاد کیجئے،دمشق یاد کیجئے،کابل یاد کیجئے۔ہر جگہ یہی مناظر تھے لیکن یوکرائن پر روس کی یلغار میں کچھ اور بھی دیکھا گیا،کچھ ایساجسے دیکھ کر یہ ثابت ہوگیاہے کہ سفید فاموں کے دل کتنے کالے ہیں۔ ہم صرف چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جنگ کے تیسرے دن یوکرائنی فوجیوں کی زمین پر پڑی لاشیں دیکھ کر بی بی سی جیسے چینل کی ایک خاتون رپورٹر کی بات سنئے، فرمارہی تھیں ”میرے لئے تو اپنے جذبات پر قابو رکھنا دشوار ثابت ہو رہا ہے۔یہ تو ہماری ہی طرح سفید فام ہیں۔ ان کی آنکھوں کا رنگ ہماری آنکھوں کی طرح ہی نیلاہے۔ ان کے بالوں کے رنگ بھی ہمارے بالوں کی طرح سنہری یا سرخ ہیں۔یہ سب کیا ہو رہاہے“۔ ایک اور میڈیا گروپ این بی سی کے نامہ نگار فرما رہے تھے”یاد رہے یہ عراقی، شامی یا افغانوں کی لاشیں نہیں ہیں۔ یہ ایک تہذیب یافتہ یورپی ملک کے باشندے ہیں“۔ گویا عراق، شام اور افغانستان کے باشندے غیر تہذیب یافتہ اور شاید پتھر کے زمانے کے انسان تھے۔ حالانکہ ان تینوں ملکوں کی تہذیب یور پ سے کئی صدی پرانی ہے۔ ایک فرانسیسی نامہ نگار نے تو حد ہی کردی، کہا”یاد رہے یہ مفلوک الحال اور غیر تعلیم یافتہ لوگ نہیں تھے، یہ تو خاصے مالدارلوگ تھے۔یہ تو عیسائی تھے۔ ان میں تو دانشور تھے“۔ دیکھا آپ نے؟ یہ وہ سفید فام یورپی ہیں، جو اپنے آپ کو دنیا میں انسانیت، تہذیب، کشادہ دلی اور وسیع النظری کی علامتیں سمجھتے ہیں۔ یوکرائن پر روس کا حملہ یقیناً ایک نہایت قابل افسوس واقعہ ہے۔ ہم نے جان بوجھ کر قابل افسوس کہا، قابل مذمت نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دو لفظوں کے اندر بھی سفید فام امریکہ اور یورپ کی عیاری اور منافقت پوشیدہ ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حملہ کی مذمت کرنے والی تجویز کو حسب توقع روس نے ویٹو کر دیا تھا۔ اس وقت سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ممبر اور دس عارضی ممبر ہیں۔ کل تعداد پندرہ ممبروں پر مشتمل ہے۔ ووٹنگ میں گیارہ اراکین نے روس کی مذمت میں ووٹ دیا۔ ایک نے مخالفت میں ووٹ دیااور ظاہر ہے وہ روس تھا لیکن تین نے ووٹ دینے سے گریز کیا۔ یہ تین چین، ہندوستان اور عرب امارات تھے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی عام اسمبلی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آنے کے بعد یہ اس کا گیارہواں ہنگامی اجلاس تھا۔خیال رہے کہ کوئی ایک ہنگامی اجلاس بھی امریکہ یا اسرائیل کی کسی جارحیت کے خلاف کبھی نہیں بلایا گیا۔ امریکہ کے عراق اور افغانستان پر حملوں اور اسرائیل کے فلسطینی ہسپتالوں پر ظالمانہ بمباری کو کبھی قابل مذمت نہیں سمجھا گیا لیکن چونکہ امریکہ کو خدشہ تھا کہ اگر روسی جارحیت کے لئے قابل مذمت کا لفظ استعمال کیا گیاتو ووٹنگ سے گریز کرنے والے ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی، اس لئے بالکل آخری لمحات میں ”قابل مذمت“لفظ کو ”قابل افسوس“ کے لفظ سے بدل دیا گیا۔ اس کے باوجود تجویز کے حق میں ایک سو چودہ مخالفت میں پانچ ووٹ آئے اور باقیوں نے ووٹ دینے سے گریز کیا۔ ووٹنگ سے گریز کرنے والوں میں ایک بار پھر چین، پاکستان اور بھارت بھی شامل تھے۔یوں بھی بھارت نے کبھی کسی بھی روسی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ 1950ء کے عشرے میں جب روس نے چیکو سلواکیہ پر چڑھائی کی تھی، تب بھی بھارت نے روس کی مذمت نہیں کی تھی۔ اس وقت بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو تھے۔ پھر جب روس نے افغانستان میں فوج کشی کی تب بھی بھارت نے روس کی مذمت نہیں کی تھی۔ اس وقت ملک کی وزیر اعظم اندرا گاندھی تھیں اور آج بھی بھارت نے روس کی مذمت نہیں کی اس کے باوجود کسی بھی یورپی سفارتکارنے نہ تو ماضی میں نہ ہی اب حال میں بھارت سے کسی مشترکہ بیان میں روس کی مذمت کامطالبہ کیاہے لیکن پاکستان سے ایسے مطالبات کئے جارہے ہیں اوراسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے بھی کھل کراس پرگرفت کی ہے گزشتہ روزمیلسی میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے جس طرح یورپی یونین کو اس کاچہرہ دکھایاہے اس سے قبل کم ہی کسی پاکستانی حکمران کو اس طرح کی توفیق ہوئی ہے انہوں نے یقینا پوری قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے جلسہ عام میں کہاکہ یورپی یونین نے خط لکھا کہ روس کیخلاف بیان دیں، یورپی یونین کے سفیروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ کیا آپ نے جو خط ہمیں لکھا ہے کیا آپ نے کشمیر ایشو پر بھارت کو بھی لکھا؟ کیا ہم غلام ہیں کہ جو آپ کہیں ہم وہ کریں، ہم ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہیں، اگر میرے دور حکومت میں ڈرون نے حملے کی کوشش کی تو فضائیہ کو حکم دوں گا کہ ڈرون کو مار گرادے پہلی بارکسی پاکستانی حکمران نے یورپ کو اس کادوغلہ چہرہ دکھانے کی جرات کی ہے جہاں تک یوکرائن بحران کا تعلق ہے تو روس کو شروع سے ہی یوکرائن کے نیٹومیں شمولیت پر تحفظات کااظہار کرتاچلاآرہاہے۔ یوکرائن کے نیٹوکا رکن بننے کا سیدھا سادا مطلب نیٹوفوجوں کو روس کے دروازے پر آنے کی اجازت دینا ہوتا۔ روس اپنے پڑوس میں کوئی ایسی ریاست نہیں چاہتا جہاں امریکہ سی آئی اے کی مدد سے آئے دن سیاسی خلفشار اور انتشار پیدا کرتا رہے،جس طرح وہ جنوبی امریکہ کی میکسکو، کیوبا، چلی اور برازیل جیسی ریاستوں میں کرتا رہتا ہے۔ یوکرائن میں بھی زیلنسکی سے پہلے جو حکومت تھی، اس سے روس کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، بلکہ وہ روس دوست حکومت تھی لیکن امریکہ نے وہاں انتشار پھیلا کر اس کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اس کے بعد کامیڈی اداکار ولادمیر زیلنسکی صدر منتخب ہوئے۔ پیوٹن نے ان سے بار بار کہاکہ وہ امریکہ اور روس کے مابین کشمکش میں غیر جانبدار رہیں،نیٹوکے ممبر نہ بنیں زیلنسکی نہ جانے کس غلط فہمی میں مبتلاتھے۔ شروع میں پیوٹن نے ان سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ نیٹوکی رکنیت لینے سے انکار کر دیں تو ان سے بات چیت ہو سکتی تھی۔ زیلنسکی نے اس کا یہ جواب دیا کہ اگر روس نے فوج کشی کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔شاید انہیں مکمل یقین تھا کہ کسی بھی روسی حملہ کی صورت میں امریکہ اور نیٹوکی فوجیں ان کی مدد کو آجائیں گی۔ انہوں نے بچشم تر نیٹوممالک سے درخواست کی کہ یوکرائن کو روس کیلئے ”نو فلائی زون“بنا دیا جائے۔ نیٹوکے سیکرٹری جنرل نے اس کے جواب میں یہ عذر پیش کیا کہ ایسا کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوکرین کے آسمان پر اڑنے والے ہر روسی طیارے کو مار گرایا جائے اور یہ ہوا تو اس کے ناقابل بیان نتائج برآمد ہوں گے۔ بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ چونکہ روس میں اس فوج کشی کی مخالفت ہو رہی ہے،اس لئے پیوٹن کو اس فوج کشی کی سیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔