ستائیس جنوری دوہزاراٹھارہ: کوہاٹ میں عاصمہ رانی نامی لڑکی کو قتل کیا گیا۔ مقتولہ کے بھائی ثاقب اللہ نے پولیس کو بتایا کہ مجاہد اللہ آفریدی اور اُس کے بھائی صادق اللہ آفریدی نے اُن کے گھر میں گھس کر فائرنگ کی جس سے اُس کی بہن کی موت ہوئی۔ قتل کا مبینہ محرک یہ بتایا گیا کہ مجاہد اللہ نے عاصمہ رانی کے لئے شادی کا پیغام بھیجا لیکن چونکہ مجاہد اللہ پہلے سے شادی شدہ تھا اِس لئے اہل خانہ اور لڑکی نے انکار کر دیا اور رشتے سے اِس انکار کو اپنی بے عزتی سمجھنے والوں نے رانی کو قتل کر دیا۔ قتل کرنے کی شب ہی نامزد مرکزی ملزم مجاہد اللہ متحدہ عرب امارات فرار ہو گیا‘ جہاں سے اُسے ’انٹرپول‘ کے ذریعے گرفتار کر کے وطن واپس لایا گیا اور اُس پر مقدمے کے دوران جرم ثابت ہونے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پشاور کی عدالت نے ”25 جون 2021ء“ کے روز سزائے موت اور تین لاکھ جرمانے کی سزا سنائی اِس کے علاوہ اُسے 20 لاکھ روپے مقتولہ کے ورثا ء کو بھی دینے کا کہا گیا‘ جو سزا کا حصہ تھا۔ ذہن نشین رہے کہ ذہین و باصلاحیت عاصمہ رانی ایوب میڈیکل کالج (ایبٹ آباد) کے ’ایم بی بی ایس‘ سال سوئم کی طالبہ تھی اور اہل خانہ اُسے ”چاند“ کے لقب سے پکارتے تھے‘ جس کے قتل پر اُنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا گھر تاریک ہو گیا ہے! قتل کے اِس مقدمے کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ اِس میں قاتلانہ حملے کے بعد عاصمہ رانی کے بیان جو کہ ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو کی صورت میں تھا‘ جس میں عاصمہ رانی نے مجرم قراردیئے گئے مجاہد اللہ کی فائرنگ کا ذکر کیا تھا اور قتل کا یہ مقدمہ اِس لئے بھی ملکی و بین الاقومی ذرائع ابلاغ میں کئی مہینوں تک زیربحث رہا کیونکہ مقتولہ عاصمہ رانی کی بہن برطانیہ میں مقیم تھیں اور اُنہوں نے عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق بیان کئے جس پر سوشل میڈیا صارفین اور دیگر عوامی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جاتا رہا۔مقتولہ رانی کے والد غلام دستگیر نے علاقائی روایات کے مطابق ایک جرگہ میں مجاہد اللہ کو معاف کر دیا۔ دس مارچ دوہزاربائیس: پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے سامنے خیبرپختونخوا حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ رانی کے قاتل کو صرف اِس وجہ سے معاف نہیں کیا جانا چاہئے کہ اُس کے اہل خانہ نے تصفیہ کر لیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ حکومتی وکیل کی جانب سے یہ نکتہئ نظر سامنے آنے سے پہلے ہی عدالت عالیہ نے بیرسٹر امیر اللہ خان کو ’ایمیکس کیوری (غیرجانبدار مشیر) مقرر کیا تھا تاکہ وہ اس قانونی نقطے پر عدالت کی معاونت و رہنمائی کریں کہ جب پاکستان کے قوانین کی متعدد دفعات میں اِس بات کی اجازت ہے کہ متاثرہ خاندان زیرسماعت مقدمات کا تصفیہ ازخود کر سکتا ہے۔مقتولہ عاصمہ رانی کی بہن صفیہ رانی برطانیہ کمپیوٹرز کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئی تھی لیکن جب اُسے اپنی بہن کے قتل کے بارے میں علم ہوا تو اُس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا تاکہ ’بار ایٹ لاء‘ کرنے کے بعد وہ پاکستان آئے اور اپنی بہن کا مقدمہ لڑے۔