سیاسی حالات

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقے میں جہاں اراکین اسمبلی کیلئے قیام گاہوں کے علاوہ غیرملکی سفارت خانے بھی ہیں‘ کی حدود میں پولیس کو اُس رضاکار دستے کے خلاف کاروائی کرنا پڑی جو مبینہ طور پر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی حفاظت کر رہا تھا۔ اٹھارہ افراد جن میں اراکین قومی اسمبلی بھی شامل تھے چھاپہ مار کاروائی میں گرفتار کئے گئے تاہم اُنہیں بعدازاں (رات گئے) رہا کر دیا گیا لیکن حکومت کے اِس اقدام سے حزب اختلاف کا اشتعال مزید بڑھ گیا ہے جو  جمہوریت کیلئے اچھا شگون نہیں ہے۔ کسی کو کو بھی اِس بات پر حیرت نہیں کہ سیاست دانوں کی آپسی لڑائی میں کس طرح جمہوریت کا مردہ خراب ہو رہا ہے! بدقسمتی سے‘ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اقدار ہر جمہوری حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل کے ساتھ مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوئی ہیں۔جس کی ذمہ داری تمام سیاسی قائدین پر عائد ہوتی ہے کیونکہ قیادت جس طرح کا رویہ اپناتی ہے کارکنوں میں بھی وہی رنگ جھلکنے لگتا ہے اس لئے یہ خود سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہے کہ وہ ایسا ماحول تشکیل دیں جہاں پر ایک دوسرے سے اختلافات کو ذاتی اختلافات سے الگ رکھا جائے ماضی میں اسی طرح کا رویہ اپنایا گیا ہے اور اس سے ایوانوں کا ماحول بھی قانون سازی کے لئے موافق رہا اور تمام سیاسی اختلافات کے باوجود متفقہ آئین کا اہم مرحلہ  طے ہوا‘ جمہوریت میں قیاس آرائیاں نہیں ہوتیں۔
 اَندازوں اور خیالات پر مبنی آرأ کی بھی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ہر بات اور ہر اقدام قومی مفاد اور سیاسی اقدار و اخلاقیات کے دائرے میں توسیع کے لئے کیا جاتا ہے جس سے گرما گرمی نہیں بلکہ اتفاق رائے پیدا ہو لیکن جس انداز میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کے بارے میں انتہا درجے کی سوچ کرتے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ملک میں گزشتہ چند دنوں سے سیاسی پارا عروج پر ہے‘ بالخصوص جب سے مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے اقدام کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ ایک طرف مجبوراً وزیراعظم کو اپنی تمام قومی و دیگر مصروفیات ترک کر کے اتحادیوں سے ملاقاتیں کرنا پڑی ہیں تاکہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا جا سکے تو دوسری طرف اُنہیں صوبہ پنجاب کی حکومت کو بھی بچانے کے جتن کرنا پڑ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین کے ناراض گروپ سے لے کر علیم خان کے گروپ تک‘ گجرات کے چوہدریوں سے لے کر کراچی کے متحدہ اراکین تک ہر کسی کے اپنے اپنے تحفظات ہیں۔ 
ایسا لگ رہا ہے کہ اگر وفاقی سطح پر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو بھی گئی تو آبادی کے لحاظ سے ملک کے اِس سب سے بڑے صوبے  پنجاب میں تحریک انصاف کومشکل کا سامنا کرنا پڑیگا۔اگرچہ عثمان بزدار نے کچھ ایسے کام کئے ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی تاہم باوجود اس کے نہ صرف اتحادی جماعتوں بلکہ خود تحریک انصاف نے بھی کچھ حلقوں میں ہمیشہ عثمان بزدار کے حکومت کرنے کے انداز پر تنقید کی ہے۔ یہ اطلاعات اپنی جگہ اہم ہیں کہ لندن کے دورے پر علیم خان اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف سے رابطے ہوئے جبکہ لیگی حلقوں نے ملاقات ہونے کی تردید کی ہے! علیم خان کا شمار ایک عرصے تک تحریک انصاف کے مرکزی قیادت سے وفادار رہنماؤں میں ہوتا تھا جبکہ اُن کے نوازشریف سے رابطے اِس بات کا اشارہ ہیں کہ علیم خان تنہا نہیں ہوں گے بلکہ اُنہوں نے دیگر اراکین کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد نواز شریف سے لندن میں رابطہ یا ملاقات کی ہوگی۔
 بہرحال وفاقی سطح پر تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے سے پہلے صوبہ پنجاب ہل چل عروج پر  ہے اور یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے  اور یہی وجہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے پراُمید حزب اختلاف نے اپنی ساری ذہانت اور طاقت اِس ایک نکتے پر مرکوز کر رکھی ہے کہ کسی بھی صورت تحریک انصاف کی حکومت آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے ختم کی جائے‘ پھر اِس کے بعد جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ اس تمام منظرنامے میں اہم بات یہ ہے کہ سیاسی رویوں میں نمایاں فرق محسوس کیا جا رہا ہے اور اب یہ تمام سیاسی حلقوں پر بھاری بھرکم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحمل برداشت کو رواج دیں اور عدم برداشت کی جو روش چل پڑی ہے اس کا خاتمہ کریں۔