جوش نہیں، ہوش سے کام لیں 

ملک کی سیاسی صورتحال میں گرما گرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرادی ہے۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد صدر مملکت کے مواخذے اور سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اپوزیشن نے طے کرلیا ہے کہ عبوری مدت کیلئے صدر پیپلز پارٹی یا جے یو آئی سے ہوگا۔جبکہ وزارت عظمیٰ مسلم لیگ ن کیلئے مختص کی گئی ہے۔ مرکز پر دباؤ بڑھانے کیلئے پنجاب کے وزیراعلیٰ کو تبدیل کرنے کیلئے حکومتی اتحادیوں نے بھی جلتی پر تیل ڈالنا شروع کردیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی طے کرلی ہے۔ حکمران جماعت کے سینئر رہنماؤں کے اجلاس میں وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ایسا پلان تیار کررکھا ہے کہ اپوزیشن کو سمجھ نہیں آنی، عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد سب کا حساب چکتا کیاجائے گا۔اوچھے ہتھکنڈوں سے گھبراکر وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ تمام حکومتی اور اتحادی ارکان میرے ساتھ ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ حکومت کی قانونی ٹیم نے وزیر اعظم کو تجویز بھجوائی ہے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین سے متعلق سپیکر کو خط لکھا جائے،ممکنہ طور پر منحرف اراکین کی فہرست پہلے ہی وزیراعظم کے پاس موجود ہے۔
وزیراعظم سپیکر سے درخواست کریں کہ وہ ان اراکین کو حکومتی پالیسی کی خلاف ورزی کی صورت میں ووٹ نہ ڈالنے دیں،یا ان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔سپیکر ایسے اراکین بارے ایوان میں ووٹنگ یا گنتی کے دوران آگاہ بھی کریں،سپیکر کو ایسے اراکین کے خلاف نا اہلی ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا بھی کہا جائے گا۔ایک تجویز یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز حکومت اور اس کے اتحادی ایوان نہیں آئیں گے۔ اپوزیشن ایوان میں تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے 172ووٹوں کی اپنی مطلوبہ اکثریت ثابت کرے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ دستور پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کی بات کی گئی ہے اور سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے ممکنہ خدشے کے تدارک کیلئے ضروری ہے کہ فلور کراسنگ کرنے والوں کو ووٹ دینے سے قبل ہی روکا جائے۔ کیونکہ ووٹنگ کی تکمیل اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں انہیں پارٹی سے نکالنے سے نیاآئینی مسئلہ پیدا ہوگا اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ بظاہر حکومت کی اتحادی جماعتوں کا اس نازک صورتحال میں کردار بہت مایوس کن رہا ہے۔
 اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے کہ وہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کا ووٹ توڑنے کی کوشش کرے۔یہاں اتحادی جماعتیں حکومت اور اپوزیشن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے کوشاں ہیں جن میں ترین گروپ، علیم خان گروپ، ایم کیو ایم، گرینڈ الائنس اور مسلم لیگ ق شامل ہیں۔پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کی رائے ہے کہ اپوزیشن نے صحیح وقت پر غلط فیصلہ کیا ہے۔دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ غلط وقت پر صحیح فیصلہ کیاجائے۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تواگلے چھ مہینوں تک اپوزیشن کو چپ سادھ لینی ہوگی اس کے بعد ملک میں انتخابات کی تیاریاں شروع ہوجائیں گی۔عین ممکن ہے کہ حکومت خود ہی قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کرے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو موجودہ قومی اور عالمی بحرانوں کی وجہ سے اپوزیشن کیلئے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہوگا اگر وہ موجودہ حکومت کی ٹیکسوں اور آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کو رول بیک کرتی ہے تو اسے مالی بحران سے دوچار ہوناپڑے گا جو اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں اپوزیشن کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوسکتا ہے۔حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو موجودہ نازک صورتحال میں جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔