بروقت اقدامات کی ضرورت

رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ قریب آرہا ہے جہاں لوگ اس ماہ مقدس کے دوران خدا کو راضی کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ عبادت اور اسکے بندوں کی خدمت کی منصوبہ بندی کررہے ہیں وہاں ایک بڑی تعداد میں لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی سے تیاریاں  شروع کردی ہیں کہ کس طرح اس مہینے کا فائدہ اٹھا کر لوگوں سے دیگر مہینوں کے مقابلے میں کئی گنا منافع کمایا جا سکے بظاہر تو ہر حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے بے شمار اقدامات اٹھائے جاتے ہیں بے شمار اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کا سرکاری اعلان کیا جاتا ہے سستا بازار لگائے جاتے ہیں اعلان کیا جاتا ہے کہ یوٹیلٹی سٹور‘ رمضان بازار‘ سستا بازار اور عام بازاروں میں حکومتی اقدامات کی وجہ سے فلاں فلاں اشیاء سستے داموں دستیاب ہونگی انتظامیہ‘ محکمہ خوراک اور دیگر محکموں کی ٹیمیں تیار کرنے کے اعلان ہوتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر چھاپے لگائے جائینگے۔
 منافع خوروں کے خلاف اتنے مقدمات درج کئے جائینگے لوگوں کو سخت قوانین کے تحت عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائینگی ہر صوبے‘ ضلع اور تحصیل میں اجلاس منعقد ہوتے ہیں انکی تصاویر اخبارات ٹی وی اور سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں مگر ہر بار ہر بازار ہر مارکیٹ ہر منڈی ہر دکان پر ریڑھی پرسبزیوں‘ پھلوں‘ دالوں‘ چاول‘ گھی‘ چینی‘ مصالحہ جات‘ دودھ‘ دہی‘ گوشت‘ بیکری  حتیٰ کہ ہر قسم کی خوردنی اشیاء کی قیمتوں کو پرلگ جاتے ہیں دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ہر چیز کی قیمت دوگنی ہوجاتی ہے سستے بازار یوٹیلٹی سٹور صرف نام کے رہ جاتے ہیں چھاپوں میں روزانہ40‘50 لوگوں کو پکڑا جاتا ہے مگر ہزاروں لاکھوں محفوظ رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ماہ مقدس میں وہ زیادہ مال کما کر اپنے بچوں اور خاندان کیلئے گویا کوئی بڑا کام کر رہے ہیں انکی عیدیں‘ افطاری اور سحریاں تو سج جاتی ہیں مگر لاکھوں لوگ کم تنخواہ اور آمدن میں اتنی زیادہ مہنگائی کے بعد گرانفروشوں کو سزا نہ دلوانے والوں کو جوبددعائیں دیتی ہیں.
 اسکا ان کو احساس نہیں ہوتا دنیا بھر میں جس بھی مذہب کا مذہبی تہوار ہوتاہے یا خاص مہینہ اور دن آتے ہیں تو مقامی بازاروں اور دکانوں پر 50فیصد تک رعایتیں دی جاتی ہیں تاکہ انکو اپنی خوشیوں میں شریک کیا جاسکے اور اس بہانے خاص مہینے اور دنوں میں انکی خدمت کی جاسکے رمضان کے مہینے میں دنیاکے کئی غیر مسلم اکثریت والے ممالک کے بازاروں میں مسلمانوں کو خوراک اور دیگر اشیاء پر خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے سب کچھ اسکے برعکس ہوتا ہے بہت سے تاجرشکایت کرتے ہیں کہ انکو آگے سے مال مہنگا ملتا ہے منڈی والے‘ ریڑھی والے بڑے چھوٹے تاجر‘ ہول سیلر سب یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کو مال مہنگا مل رہا ہے اسلئے وہ مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں  ضرورت ہے کہ ہول سیل ڈیلر تاجر اگر اس مصنوعی مہنگائی کا ذمہ دار ہے توان سب سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے ابھی بھی وقت ہے کہ اس حوالے سے راست اقدامات بروقت اٹھائے جائیں۔