پاکستان میں بینکوں سے قرض لینا کسی بھی دور آج جیسا آسان نہیں رہا۔ ثبوت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ ”یکم جولائی 2021ء سے گیارہ فروری 2022ء کے درمیانی عرصے میں بینکوں نے مجموعی طور پر 813 ارب روپے کے قرض دیئے جبکہ ایک سال قبل اِسی عرصے کے دوران 292 ارب روپے قرض دیا گیا تھا۔“ سٹیٹ بینک کے فیصلہ سازوں کو اِس بات کا بھی یقین ہے جس کا ذکر مذکورہ اعدادوشمار کے ساتھ ذکر کیاگیا ہے کہ رواں مالی سال (دوہزاراکیس‘ بائیس) کے اختتام پر بینکوں سے نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضہ جات کا حجم ایک کھرب روپے سے تجاوز کر جائے گا۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں بینکاری کے شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے حکومت نے کئی ایک اصلاحاتی اقدامات کئے ہیں جن میں ایک قانونی ترمیم کے ذریعے حکومت پر سٹیٹ بینک سے قرض لینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن اِس پابندی کے اطلاق سے قبل ہی حکومت نے سٹیٹ بینک سے قرض لینا ترک کردیا تھا اور حکومت نجی مالیاتی اداروں سے قرض لے رہی ہے‘ جو آئینی ترمیم کے بعد مجبوری بن چکی ہے تاہم یہ مرحلہ حکومتی قرض کیلئے نجی بینکوں پر انحصار کم کرنے کا ہے کیونکہ جب بینکیں حکومت کو قرض دیتی ہیں تو اُن کے پاس نجی صارفین یا صنعتوں کو قرض دینے کیلئے پیسہ یامالی وسائل نہیں ہوتے اور یوں نجی شعبہ بالخصوص وہ صنعتیں جنہیں بیرون ملک سے پیداوار یا برآمدات کے آرڈرز ملے ہوتے ہیں اُن کیلئے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کی معیشت اُس وقت تک فعال نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنی صنعتوں کیلئے مختصر یا طویل مدتی قرضہ جات کا بندوبست نہ کرے کیونکہ اِسی سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے اُور ملکی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے‘ جو پاکستان کو بھی مطلوب ہیں۔پاکستان جیسے کم آمدنی والے ممالک کیلئے ”قومی بچت (نیشنل سیونگ)“ اقتصادی ترقی کیلئے بہت ضروری ہے چونکہ کم آمدنی والے ایسے ممالک میں چھوٹی سرمایہ کاری کے مواقع کم ہوتے ہیں اِس لئے عوام کچھ منافع کیلئے ”قومی بچت“ پر انحصار کرتے ہیں اور اِس مقصد کیلئے حکومت ”قومی بچت“ نامی ادارے کے تحت پرکشش مراعاتی سکیموں کا اعلان کرتی ہے لیکن حالیہ چند برس کے دوران بدقسمتی سے پاکستان میں ’قومی بچت‘ کا رجحان کم ہوا ہے اور لوگ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ خرچ کرنے کے بعد بچت کی بجائے اسراف کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اسراف میں ہر قسم کی خریداری آتی ہے‘ جو بلاضرورت کی جاتی ہے جبکہ بچت کی عادت سلیقے اور حسب ضرورت اخراجات کی صورت کی جاتی ہے۔ المیہ ہے کہ پاکستان کا شمار اُن اقوام میں ہونے لگا ہے جو شاذ و نادر ہی بچت کرتی ہے یا قومی بچت کو ضروری سمجھتی ہے۔ روزمرہ اخراجات سے بچت کی عادت رکھنے والوں کی اکثریت اسے سرکاری بچت سکیموں میں جمع کرانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ایک تو شرح منافع کم ہے‘ دوسرا چھوٹی سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اُن سے کرید کرید کر سوالات یا آمدنی کے وسائل بارے دستاویزات طلب کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے اکثریت انفرادی طور پر پیسے جمع رکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔
گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی بچت جی ڈی پی کا تناسب محض چودہ فیصد تھا جو کہ دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ’نیشنل سیونگز پاکستان‘ کے نام سے قومی ادارہ موجود ہے جو ملک کا سب سے بڑا سرمایہ کاری کرنے کا مالیاتی ادارہ ہے اور خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ مکمل طور پر حکومت کی ملکیت ہے۔ یہی ادارہ حکومت کو ’بجٹ خسارہ‘ کم کرنے میں مدد دینے کے ساتھ ملک کے بنیادی ڈھانچے (انفراسٹکچر) سے متعلق ترقیاتی منصوبوں کو پورا کرنے کیلئے مالی وسائل (فنڈز) فراہم کا ذریعہ بنتا ہے تاہم بیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں نیشنل سیونگز کے پاس اگر صرف ستر لاکھ سے زیادہ سرمایہ کار ہوں تو یہ حوصلہ افزأ صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے اور صاف ظاہر ہے کہ عام آدمی بچت کو غیرضروری سمجھ رہا ہے یا پھر قومی بچت میں سرمایہ کاری اُس کیلئے خاطرخواہ منافع بخش نہیں رہی۔ یہ دونوں منفی محرکات اپنی جگہ موجود ہیں اور ضرورت ہے کہ اِس کے بارے میں قومی حکمت عملی وضع کی جائے اور عوام کے دلوں میں موجود شکوک و شبہات دور کئے جائیں تاکہ وہ دوبارہ قومی بچت سے جڑ سکیں اور اُنہیں بچت کی عادت سے بھی مانوس کروایا جائے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ’قومی بچت‘ سے متعلق عوامی و عمومی بے حسی کی بنیادی وجہ شعور اور خواندگی کی کمی ہے اور اِس کمی کے باعث ’قومی ترقی‘ کا عمل بھی متاثر ہو رہا ہے۔ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ قومی بچت سے استفادہ کرنے والے موجودہ صارفین اپنی رقومات بہبود اور ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس یا پھر انعامی بانڈوں (پرائز بانڈز) جیسی سکیموں میں ڈالنے سے گریزاں ہیں۔
حالیہ برسوں میں اِن سکیموں پر منافع کی شرح میں بھی کمی کی گئی جس کی وجہ سے قومی بچت میں سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ مہینوں میں سود کی شرح میں کمی کی تاکہ بڑے سرمایہ کاروں کو بینکوں سے رقومات حاصل کرنے کی طرف راغب کیا جا سکے۔ صنعتیں چلیں اور روزگار میں اضافہ ہو جس سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور قومی ضروریات مقامی پیداوار سے پوری ہونے کے ساتھ برآمدات میں اضافہ ہو لیکن یہ اہداف تو حاصل نہیں ہوئے البتہ شرح سود کم ہونے سے قومی بچت میں سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثر پڑا اور شرح سود کم کرنے سے چھوٹے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی‘ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین جو اپنی پنشن کا بڑا حصہ ’قومی بچت‘ میں سنبھال رکھتے تھے سرمایہ کاری کے دیگر مواقعوں کی تلاش میں نکلے تو اُن کی نظر ڈالر پر پڑی جسے خریدنے اور بیچنے والوں میں چھوٹے سرمایہ کار بھی شامل ہیں کیونکہ اُن کے پاس کسی دوسری ایسی سکیم میں سرمایہ کاری کا محفوظ راستہ نہیں ہے کہ جہاں سے وہ کم وقت میں زیادہ منافع کما سکیں۔ اعداد و شمار کے مطابق‘ شرح سود کم کرنے کے بعد اور اِس کمی کو برقرار رکھنے کے فیصلے کا فوری براہ راست اثر ’قومی بچت سکیموں پر پڑتا ہے جہاں سالانہ سات ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی جو اِس سے قبل اوسطاً ساڑھے تین ارب روپے ماہانہ کے لگ بھگ تھی۔
یہ گزشتہ سال کی نسبت غیرمعمولی کمی ہے۔ شرح سود کم کرنے کے باوجود بھی ’قومی بچت سکیموں‘ کا شرح منافع دیگر بینکوں سے زیادہ ہے لیکن قومی بچت مراکز کی خدمات کا معیار اور مراکز پر سہولیات بینکوں کی طرح پُرکشش نہیں۔ فیصلہ سازوں کو جہاں بچت کی عادت اور ’قومی بچت‘ میں سرمایہ کاری کی جانب عوام کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے وہیں قومی بچت مراکز کے معیار کو بہتر بنانے اور نئی سہولیات جیسا کہ آن لائن بینکاری (موبائل فون ایپس اور ویب سائٹس) متعارف کرانے پر غور کرنا چاہئے۔ بچت سے کنارہ کشی بے حسی ہے لیکن یہ ’بے حسی‘ عام آدمی کیلئے غم نہیں بلکہ ’علاج غم‘ بن چکی ہے کیونکہ بچت کے سرکاری اداروں کی کارکردگی پر یکسانیت و سکوت طاری ہے۔ مالیاتی و سرمایہ کاری کے شعبے میں جہاں ادارہ جاتی مقابلے کے باعث ’قومی بچت‘ کا نقصان ہو رہا ہے وہیں فیصلہ سازوں کو اِس بارے بھی توجہ دینی چاہئے کہ ’قومی بچت‘ کے ادارے کو خدمات کے لحاظ سے بھی سرفہرست بنانے کیلئے کس طرح کی اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔