انسانی سمگلنگ عالمی مسئلہ ہے۔ اِس سلسلے میں رواں ہفتے انسانی حقوق کمیشن (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں انسانی سمگلنگ جیسے مسئلے کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مذکورہ حقائق نامے میں کئی لائق توجہ امور زیربحث لائے گئے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ ملک گیر سطح پر فعال گروہوں کی کارستانی ہے‘ جنہوں نے یہ کاروبار منظم انداز میں پھیلا رکھا ہے اور باسہولت انداز میں اِس مکروہ دھندے کو جاری رکھے ہوئے ہیں البتہ انسانی حقوق کمیشن نے اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس حوالے سے درست اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ پاکستان سے ہر سال کل کتنے لوگ سمگل ہوتے ہیں۔۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ انسانی حقوق کمیشن نے انسانی اسمگلنگ سے متعلق جن چند پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی ادارے جدید دور میں غلامی کی نئی شکل و صورت کا نہ صرف کھوج لگائیں گے بلکہ اِس کے سدباب کے لئے بھی اقدامات و سفارشات مرتب کی جائیں گی اور اِس سلسلے میں گہرائی و سنجیدگی سے تحقیقات کی جائیں گی۔ اِس بات کی بھی اُمید ہے کہ انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔تاہم بنیادی بات اور ضرورت یہی ہے کہ سب سے پہلے اِس بات کا تعین کیا جائے کہ انسانی اسمگلنگ کا طریقہئ واردات کیا ہے اور یہ کہاں اور کیوں رونما ہو رہی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق اسمگل ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں‘
خاص طور پر کم عمر لڑکیاں جنہیں زبردستی بھیک مانگنے‘ جبری شادی‘ جبری مشقت کے ساتھ دیگر استحصالی مقاصد کے لئے اغوا کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔ باعث تشویش امر یہ ہے کہ اِس بارے میں صرف ایک نہیں بلکہ کئی ایک رپورٹیں منظرعام پر آ چکی ہیں جن میں صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ غیرملکی اداروں اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے پیش کردہ رپورٹیں بھی شامل ہیں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سماجی اور ذرائع ابلاغ کی خاموشی کے باعث اِس بات کا اندازہ لگانا ناممکن حد تک دشوار ہے کہ یہ جرم کس بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اور وہ کونسے علاقے ہیں کہ جہاں سے انسانی اسمگلنگ کے واقعات نسبتاً زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی جانب متوجہ کرنے والی ملکی و غیرملکی تنظیمیں ایک عرصے سے سالانہ رپورٹیں باقاعدگی سے جاری کرتی ہیں۔
المیہ اپنی جگہ ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف قوانین تو ہیں لیکن یہ اپنی ساخت اور جرم کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی کمزور ہیں۔ انسان کو ہر قسم کی جسمانی و فکری غلامی سے آزاد ہونا چاہئے اور اگر اِس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو انسانی سمگلنگ کے سدباب سے متعلق شعور‘ آگاہی اور متعلقہ قانون کی معنویت کا تقاضا یہ ہے کہ حسب قانون و قواعد اِن خصوصی جرائم کو روکا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان انسانی سمگلنگ سے متاثرہ دنیا کا واحد ملک نہیں‘ دیگر کئی نے اِس مسئلے کا پائیدار حل نکالا ہے جنہیں بطور مثال مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر بھی انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں پیشرفت کرتے ہوئے ایک عالمی مشترکہ حکمت عملی بھی وضع کر سکتا ہے‘ جو وقت کی ضرورت بلکہ فوری ضرورت ہے کیونکہ یقینی بات ہے کہ ہر سال انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں کی تعداد درجنوں یا سینکڑوں میں نہیں ہوتی بلکہ یہ تعداد ہزاروں سے بھی زیادہ ہے اگر انسانی اسمگلنگ جیسا جرم کرنے والوں کے لئے ”زیرو ٹالرنس“ کا مظاہرہ کیا جائے اور اِس جرم میں ملوث افراد چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں‘ اگر انہیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں تو اِس خصوصی جرم کا سدباب ممکن ہے۔