خان عبدالغنی خان

 والد ان کو ایک عالم بنانا چاہتے تھے مگر کیمیکل انجینئر بنے، میدان سیاست میں داخل ہوئے اور مختصر عرصہ میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں مگر جلد ہی سیاست کو بھی خیر باد کہہ دیا اور پھر ایک شاعر بن کر سامنے آئے تو ایک مرتبہ پھر دلوں کو مسخر کرتے چلے گئے شعبہ انجینئرنگ، سیاست، شاعر، فلسفہ، مصوری اور مجسمہ سازی میں ید طولیٰ رکھنے والی غالباً اس خطے کی واحد شخصیت کہلانے کے مستحق ہیں، لوگوں نے تو غنی خان سے لے کر غنی بابا تک کے القابات دیئے مگر خود انہوں نے ان سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خودکو لیونے کہلوایا اور واقعی کہ لیونے فلسفی تھے جبھی تو پختون معاشرے کی فرسودہ روایات اور اعتقاوات کو زندگی بھر جھنجھوڑتے رہے۔ باچا خان کی خواہش تھی کہ ان کا بڑا بیٹا ایک اچھا عالم دین اور مذہبی سکالر بنے چنانچہ انہوں نے اس وقت کے مروجہ نظام کے تحت غنی خان کو گاؤں کی مسجد کے مدرسہ میں داخل کرایا یوں وہ غنی خان جس نے آگے چل کر اپنی شاعری میں ملا کو ہدف تنقید بنایا آغاز میں اسی سے تعلیم حاصل کرنے لگا کچھ عرصہ بعد ان کو نیشنل ہائی سکول پشاور بھیج دیا گیا پھر جب باچا خان نے انجمن اصلاح افاغنہ پلیٹ فارم سے آزاد سکول قائم کیا تو غنی خان کو اس میں داخل کروایا کیونکہ باچا خان عملی انسان تھے اس لئے اپنے قائم سکول میں پہلے اپنے ہی بچوں کو داخل کروایا۔ 1921ء میں غنی خان آزاد سکول کے طالبعلم بنے اس سکول میں انہوں نے اُردو اور عربی سیکھی اور 1927ء میں میٹرک کر لیا جس کے بعد باچا خان نے ان کو مروجہ روایتی اسلامی تعلیم کے حصول کیلئے جامعہ ملیہ دہلی بھجوایا جس کا قیام 1920ء میں عمل میں آیا تھا یوں غنی خان اپنے والد کی خواہش کے مطابق اسلامی تعلیمات حاصل کرنے لگے بعد ازاں باچا خان نے غنی خان کو انگلستان بھجوا دیا اس وقت ان کی عمر محض 15 سال تھی کچھ عرصہ لندن میں رہے تاہم باچا خان انگلینڈ کی تعلیم سے مطمئن نہ ہو سکے اور کوشش کرنے لگے کہ انہیں امریکہ بھجوا دیں اس سلسلے میں انگلستان میں متعین افغان سفیر نے بڑی مدد کی اوران کی کوششوں سے عبدالغنی خان امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے جنوبی لوزیانا یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انجینئرنگ کرنے لگے

انہوں نے شوگر ٹیکنالوجی کا میدان چنا تھا اسی لئے ان کو بجا طور پر اس میدان میں پہلا پختون انجینئر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ادھر باچا خان کی تحریک زور وشور سے جاری تھی۔ 1931ء میں انگریزوں نے باچا خان کو گرفتار کر لیا ان کی زمینیں بھی سرکاری قبضے میں لے لی گئیں خاندان کے مالی حالات خراب ہونے لگے جس کے نتیجے میں غنی خان کو وقت سے پہلے ہی وطن آنا پڑا چونکہ گھرانے میں سب سے بڑے تھے اس لئے ذمہ داریاں بھی زیادہ تھیں اسی لئے وہ وطن واپس آگئے اور 1933ء میں تخت بھائی شوگر ملز کے ساتھ وابستہ ہوگئے تاکہ اپنی خاندان کی کفالت کا فریضہ ادا کر سکیں اور وہ اس میں کامیابی بھی رہے غنی خان نے زندگی کے جس شعبہ میں بھی قدم رکھا کامیاب رہے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ویژن رکھنے والے انسان تھے آنکھیں بند کرکے تقلید کے قائل نہیں تھے اپنی سوچ اور سمجھ
 کے مطابق نئی نئی راہیں تلاش کرنے کے ماہر تھے اس لئے اگرچہ مختلف عرصہ کیلئے سیاست میں آئے مگر خود کو کامیاب اور ویژنری سیاستدان ثابت کر دکھایا ویسے بھی سیاست ان کے خاندان کا اوڑھنا بچھونا تھی اس لئے وہ اس سے لاتعلق رہ بھی نہیں سکتے تھے وہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے ممبر بھی رہے اور اس دوران ان کی تقاریر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو وہ ایک بلند مرتبہ سیاسی رہنما کی صورت میں نظر آئے ہیں پختون تنظیم کا قیام انہی کا کارنامہ تھا درحقیقت وہ جانتے تھے کہ اگرچہ باچا خان خود کو عدم تشدد کے پرچارک ہیں مگر انگریز حکومت اور باچا خان کے مخالف سیاستدان دونوں ہی اس کے برعکس باچا خان کو ناکام بنانے کی خاطر ظلم وجبر کا ہر ہتھکنڈا روا رکھ سکتے ہیں۔ غنی خان کو معلوم تھا کہ مخالفین کبھی بھی باچا خان کو عوامی اجتماع کے دوران نشانہ بنا سکتے ہیں چنانچہ انہوں نے باچا خان کے جلسوں کا انتظام وانصرام کرنے اور ان کی حفاظت کی غرض سے زلمے پختون کی بنیاد رکھی اور خود اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے یہ درحقیقت ان کی ذہانت اور سیاسی بصیرت کا بین ثبوت تھا علاوہ ازیں غالباً وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے اپنی پہلی احتجاجی تحریک محض 9 سال کی عمر میں چلائی۔ دنیا بھر میں اس کی مثال ملنی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ جب 1921ء میں انگریز سرکار نے باچا خان کو گرفتار کرکے تین سال قید کی سزا سنائی تو کچھ عرصہ بعد ہی ان کے کارکنوں اور بالخصوص آزاد سکول کے طلباء نے انتہائی مختلف انداز میں تحریک شروع کی چونکہ حکومتی جبر وتشدد پورے
 عروج پر تھا لہٰذا جلسے جلوس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ان حالات میں خدائی خدمتگاروں اور آزاد سکول کے طلباء نے مساجد میں محافل میلاد کا انعقاد شروع کیا ان دنوں غنی خان کی عمر محض 9 برس تھی ولی خان ایک اچھے قاری تھے چنانچہ قرأت وہ کیا کرتے تھے جبکہ 9 سالہ غنی خان اس عمر میں ہی بہت اچھا مقرر بن گیا تھا  وہ اس موقع پر بہت ہی شاندار تقریر کیا کرتے تھے ان کی تقاریر اور اس کردار کی تعریف خود باچا خان نے اپنی سوانح عمری میں کی ہے۔ غنی خان آخر میں یہ کہہ کر لوگوں کا ضمیر جھنجھوڑنے اور ان کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے کہ”اے لوگو! آپ ذرا اس حکومت سے یہ تو پوچھیں کہ میرے باپ کو اس نے کس لئے قید کر رکھا ہے آخر ان کا گناہ کیا ہے اور انہوں نے کیا جرم کیا ہے“؟ ننھے غنی خان کے ان الفاظ نے لوگوں پر گہرا اثر کرنا شروع کیا باچا خان کہتے ہیں ”اس قسم کی باتوں کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہونے لگا وہ بہت متاثر ہوئے ملک میں ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی“ اور اس سب میں غنی خان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔غنی خان بلاشبہ ایسی خداداد صلاحیتوں سے لیس تھے جن کا ایک انسان میں یکجا ہونا یقینا اسے دوسروں سے ممتاز کر دیتا ہے اور اوہ اپنی تمام صلاحیتوں کو اس طرح بروئے کار لائے کہ ہر شعبے میں نمایاں حیثیت حاصل کی۔محض چند سال کی عملی سیاست کرنے کے بعدقیام پاکستان سے پہلے ہی انہوں نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا غنی خان کی شاعری، فن، مجسمہ سازی، فلسفہ، مصوری وغیرہ پر تو بہت کام ہوا اور ہو رہا ہے مگر ان کی سیاست کے حوالے سے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے باوجود اس کے کہ قیام پاکستان کے وقت وہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے خان قیوم اور بعد کے حکمرانوں نے باچا خان اور ان کے دیگر ساتھیوں کی طرح غنی خان کو بھی مسلسل قید رکھا۔غنی خان ہمیں سراپا باغی نظر آتے ہیں ظاہر ہے

اس کی وجوہات تھیں بلاشبہ وہ ایک جینئس تھے وہ ایک سمندر تھے ایک ایسا سمندرکہ جسے گزرنے کیلئے مناسب راہ نہ ملی اور وہ سیلاب بن کر معاشرے پر ٹوٹ پڑا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں معاشرے کے جن گوشوں کو بے نقاب کیا ہے کسی اور میں نہ اتنی جرات اور نہ ہی اتنی بھرپور صلاحیت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس طرح انہیں اپنی ذات میں ایک ایسی انجمن کی حیثیت حاصل تھی جس سے آج بھی کئی شعبوں میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی مغربی تعلیم حاصل کی‘نوکری کی‘ سیاست کی پارلیمنٹ کے رکن رہے چنانچہ ہرجگہ انہوں نے خود کو مس فٹ محسوس کیا اور یہی چیز آخر کار ان کو لیونے فلسفی بنا گئی وہ ایک واضح سوچ رکھنے والے سیاسی رہنما تھے مخلص پختون تھے، فنون لطیفہ کے بہترین مرقع تھے‘آزاد روح تھے‘ بدقسمتی سے آج تک ان کی شاعری اور فن سے استفادہ کی کوشش نہیں کی گئی آج اسی عظیم انسان کی برسی منائی جارہی ہے کیاہم نے نئی نسل حقیقی غنی خان دکھانے کیلئے کچھ کیاہے اس کاجواب ہر باشعورپختون کے ذمہ قرض رہے گا۔