ممتاز عالم دین اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی امور مولانا طاہر اشرفی نے شکوہ کیاہے کہ ہم من حیث القوم سچ سننے اور بولنے کی عادی نہیں ہیں‘ پرانے زمانے میں ہماری مائیں اور دادیاں بچوں کو جھوٹ بولنے سے یہ کہہ کر ڈرایا کرتی تھیں کہ جھوٹ بولنے والوں کو کوا کاٹتا ہے، بچھو ڈنگ مارتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہوتا ہے‘جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے بہت جلد جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔یہ باتیں معصوم بچوں کے ذہنوں پر نقش ہوتی تھیں اور وہ جھوٹ بولنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ یہی دین اسلام کی بھی تعلیم ہے۔ سرکار دوعالمؐ کا واضح فرمان ہے کہ منافق کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ وعدہ خلافی کرتا ہے اور تیسری نشانی یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔ آج ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو یہ تمام خامیاں ہم میں زیادہ تر میں موجود ہیں۔جھوٹ بولنے کو مصلحت سے تعبیر کیا جاتا ہے
اور مصلحت کوشی کو کامیابی کی کنجی قرار دیا جاتا ہے۔دین اسلام کا یہ سبق اغیار نے اپنے پلے باندھ لیا۔ایک دوست نے بتایا کہ اس کا کوئی رشتہ دار بچہ ایک سال کے مطالعاتی پروگرام میں امریکہ گیاہوا تھا۔ وہاں پاکستان سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے بچوں کو ہاسٹلوں کی بجائے گھروں میں مقامی خاندانوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ امریکی معاشرے کے خدوخال کو فیملی میں رہ کر جان سکیں‘ایک دن کھیلتے ہوئے اس گھر کے بچے سے قیمتی برتن ٹوٹ گیا۔ بچہ ماں کے خوف سے سہم گیا۔ پاکستانی بچے نے اسے سمجھایا کہ وہ برتن توڑنے کا الزام مجھ پر لگادے۔ جب ماں گھر آگئی اور قیمتی برتن کا حشر دیکھا تو اپنے بچے سے پوچھا کہ برتن کس نے توڑا۔ بچے نے بتایا کہ برتن تو میں نے خود توڑا ہے لیکن مہمان بچہ اس سے اصرار کر رہا تھا کہ وہ برتن توڑنے کا الزام اس پر لگادے تاکہ میزبان بچے کو سزا نہ ملے‘ خاتون نے مہمان بچے کو بلایا‘ اورمیزبان بچے کیلئے قربانی دینے کے جذبے کی تعریف کی تاہم مہمان بچے سے کہا کہ وہ اپنا سامان باندھے اور اپنے ملک واپس جانے کی تیاری کرے‘
کیونکہ وہ ان کے بچوں کو جھوٹ بولنا سکھائے گا تو ان کے کردار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے‘بلاشبہ جھوٹ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ جھوٹ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے مزید سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ہمارے ہاں خاص طور پر سیاست کو جھوٹ اور مصلحت کا کھیل قرار دیا جاتا ہے۔لوگ دیدہ و دانستہ اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ بعض افسر جب کسی سے نہ ملنا چاہیں تو سیکرٹری کو سمجھاتے ہیں کہ کوئی ملنے آئے تو بتانا کہ صاحب میٹنگ میں ہے‘ ہمارے بعض تاجر بھی اصل مال کی قیمت لے کر نقلی چیز قسمیں کھاکھا کر بیچتے ہیں‘ معاشرے میں جھوٹ کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے‘یہی وجہ ہے کہ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے‘تاہم سچائی، ایمانداری، دیانت داری اور امانت داری کا راستہ صرف سچ ہی دکھاتا ہے‘ وزیراعظم کے معاون خصوصی نے معاشرے کے نہایت مہلک مرض کی نشاندہی کی ہے‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں اب بھی سچ کابول بالا کرنیوالے افراد موجود ہیں، دیانت داری کا بھرم رکھنے والے بھی ہیں اور اس سلسلے میں مالی نقصان اٹھانے پر تیار ہیں مگر اخلاق اور سچائی کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے، ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے تو یہ زندگی کی گاڑی اب بھی رواں دواں ہے تاہم وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے جس طرف اشارہ کیا ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس مرض کے تدارک کیلئے گھر کا ماحول بدلنا، سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا نصاب تبدیل کرنا ہوگا۔