چین اور روس کی قربت اور یوکرائن کا محاذ ِجنگ کھلنے کے بعد سے سوشل میڈیا سمیت عالمی ذرائع ابلاغ پر صارفین کی تشویش اور تجزئیات سے کچھ سوالات اَخذ کئے جا سکتے ہیں جن میں پہلا تشویش کا نکتہ یہ ہے کہ کیا ”چین کی ترقی رُک جائے گی؟“ روس یوکرائن جنگ ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب یورپ اور امریکہ کے تعلقات مثالی ہیں اور بہت ہی کم ایسے امور یا معاملات ہیں جن میں امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں سے اختلاف رکھتا ہے‘ اِس صورتحال کو اِس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یورپ نے اپنی رائے امریکہ کی مرضی سے مشروط کر رکھی ہے اور تاریخ نے ایسا اتفاق و اتحاد اِس سے قبل نہیں دیکھا تاہم صرف دو ہفتوں کی روس یوکرائن جنگ نے یورپ کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اگرچہ اِس کے منفی اثرات کم کرنے کیلئے اقدامات بھی ہو رہے ہیں جیسا کہ یورپ کے مرکزی بینک کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کو اُمید ہے کہ ”یورو زون کیلئے دوہزاربائیس کیلئے شرح نمو تین اعشاریہ سات فیصد سے بڑھ کر رواں برس کے اختتام چار اعشاریہ دو فیصد ہو جائے گی
“ اِسی تناظر میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا کو یقین ہے کہ ”جنگ اور روس پر اقتصادی پابندیاں‘ جن کی وجہ سے روسی تیل کی درآمد پر امریکی پابندی شامل ہے کی وجہ سے توانائی اور دیگر اہم اجناس جیسا کہ گندم‘ کھاد اور دھاتوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا“ اور خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ اجناس کی قیمتیں پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں‘ جنگ کے باعث یوکرائن سے پناہ گزینوں کے قافلے یورپ کی جانب رواں دواں ہیں جن کی میزبانی کی لاگت اور اِس مد میں درکار مالی وسائل (امدادی بجٹ) کا تخمینہ 175 ارب یورو لگایا گیا ہے اور یہ کسی بھی طرح معمولی مالیاتی بوجھ نہیں! مالیاتی تجزیہ کاروں کی ایک تعداد یوکرائن سے آنیوالے مہاجرین اور روس پر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے توانائی و دیگر اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے جواز پر عالمی معیشت کی ممکنہ کساد بازاری کا ذکر کر رہے ہیں لیکن فی الوقت ایسے آثار نہیں البتہ اقتصادی جمود طاری ہے جو مسلسل بلند افراط زر کے ساتھ مل کر بلند بیروزگاری میں اضافے کا باعث بن رہا ہے
‘عالمی منظرنامے میں دوسرا سوال مہنگائی کے بڑھنے سے متعلق ہے کہ آخر قیمتوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ یہی سوال پاکستان کیلئے بھی پریشانی کا باعث ہے‘ حقیقت حال یہ ہے کہ ایک سال کے عرصے میں مہنگائی دنیا بھر میں بڑھی ہے کیونکہ اجناس کی فراہمی کے نظام (سپلائی چینز) کورونا وبا کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں اور اِس کے نتیجے میں خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے‘ جس سے پیداواری لاگت بھی بڑھی ہے‘ روس یوکرائن جنگ نے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے علاؤہ مہنگائی کے دباؤ کو بھی مزید بڑھایا جو پاکستان جیسے کئی ممالک میں عام آدمی کی قوت خرید یعنی خطرہ کے نشان کو عبور کر چکی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہر دس ڈالر کا اضافہ کسی بھی ملک کی شرح نمو میں صفر اعشاریہ ایک فیصد کمی کا باعث بنتی ہے اور اِسی کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں صفراعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوتا ہے‘اِسی تناظر میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے دنیا کو خبردار کیا ہے
کہ ”روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے دنیا بھر میں مہنگائی کی نئی لہر آئے گی کیونکہ کئی اہم صنعتیں پہلے ہی متاثر ہو چکی ہیں اور سپین میں کئی سٹیل پلانٹس توانائی کی بلند قیمتوں کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ لاکھوں گھرانوں کو سفر کرنا پڑا رہا ہے جنہیں گرم و باسہولت قیام گاہوں اور اشیائے خوردونوش کی ضرورت ہے جو سستی نہیں رہیں‘تیسرا سوال عالمی معیشت کی بحالی اور اِس کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق ہے کہ مزید ایسی کتنی مشکلات حائل ہو سکتی ہیں اور کیا روس یوکرائن جنگ طول پکڑے گی‘ جس کے منفی اثرات پہلے ہی صرف ہمسایہ نہیں بلکہ عالمی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں؟ اِس سلسلے میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سال دوہزاربیس میں وبائی مرض کورونا کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوا‘ جو تاحال ختم نہیں ہوا ہے اور اِس سے نمٹنے کی عالمی حکمت عملی بھی ابھی اپنے انجام کو نہیں پہنچی ہے‘ اقوام متحدہ نے ترقی یافتہ ممالک کی نمائندہ اور عالمی تعاون کی تنظیم جی سیون گروپ سے تعاون کا مطالبہ کرتے ہوئے ’توانائی کی لاگت‘ کم کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ معاشی متاثرین کے مسائل و مشکلات کم کی جا سکیں
‘ دوسری طرف اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے دوہزاربائیس کا سال مزید مہنگائی اور سماجی و سیاسی عدم استحکام لائے گا کیونکہ معاشی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں اور ترقی پذیر ممالک کے پاس معاشی مسائل کا حل موجود نہیں ہے‘ کثرت سے پوچھا جانے والا چوتھا سوال کورونا وبا سے متعلق ہے جس کی کئی نئی اور تبدیل شدہ (ہائبرڈ) اقسام سے متعلق آئے روز خبریں اور ہلاکت خیزی کی داستانیں سننے میں آتی ہیں‘ جن کے بارے میں طبی ماہرین اور عام آدمی کی پریشانی ایک جیسی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک کورونا وبا کی وجہ سے نقل و حرکت اور سماجی فاصلے سے متعلق پابندیاں نرم کر رہے ہیں‘ سعودی عرب نے عمرے کیلئے آنیوالے زائرین کو ’کورونا پابندیوں‘ سے آزاد کر دیا ہے لیکن چین میں اس کے برعکس صورتحال کی خبریں آ رہی ہیں۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت‘ چین نے رواں ہفتے پشاور جتنی آبادی رکھنے والے ایک شہر چانگ چن (Changchun) میں ”مکمل لاک ڈاؤن“ کیا تاکہ کورونا وبا کی نئی لہر اور نئی قسم پر قابو پایا جا سکے تاہم چین سے طبی نکتہ نظر اور وہاں کورونا وبا کی صورتحال بارے عمومی خبریں زیادہ تفصیل سے نہیں آ رہیں کہ کورونا وبا کیخلاف کارگر ویکسین دنیا کو فراہم کرنے اور علاج معالجے کی بہترین سہولیات سمیت کورونا وبا سے نمٹنے کا تجربہ رکھنے والے چین کیوں پریشان ہے اور آخر کیا وجہ ہے کہ کورونا کی نئی لہر چین کیلئے پریشانی کاباعث بنی ہوئی ہے‘ ماضی کی طرح اگر کورونا وبا کی کسی نئی لہر نے سر اُٹھایا تو اِس سے چین کی معیشت سست ہو جائیگی اور یہی وجہ ہے کہ چین سے آنیوالی خبریں اور اطلاعات سے کسی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا کہ جس سے پاکستان جیسا ہمسایہ و دیگر ممالک حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے ہاں احتیاطی تدابیر یا دیگر اقدامات کے ذریعے ’کورونا وبا کی نئی لہر سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔