ماحولیاتی تنوع اورموسمیاتی تبدیلی 


کرہئ ارض کے ماحولیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے خبردار کرنے والوں کی کمی نہیں۔ رواں ہفتے اقوام متحدہ کے جملہ رکن ممالک پر مشتمل ’بین الحکومتی پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی)‘ نے ماحول سے متعلق ایک تحقیق کروائی جس کے لئے ریسیلینٹ فیوچر انٹرنیشنل (آر ایف آئی) نامی تنظیم کی خدمات حاصل کی گئیں یوں خطیر رقم اور ہزاروں گھنٹے پر محیط تحقیق سامنے آئی جس کے مندرجات میں پاکستان کا ذکر بھی موجود ہے اور مذکورہ رپورٹ میں پاکستان سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ ہمارے دیہی اور شہری علاقوں کو آنے والی دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں پانی کی کمی‘ ٹڈی دل کے بڑھتے ہوئے حملوں اور صحت کی دیکھ بھال کے سنگین مسائل سے خبردار کیا گیا ہے لیکن مذکورہ تینوں امور قومی ترجیحات کا حصہ نہیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان پر بڑے پیمانے پر رونما ہو رہے ہیں

اور اگر مناسب و بروقت اقدامات نہ کئے گئے اور حقیقت کو روز روشن کی طرح دیکھتے ہوئے اِس کی جانب توجہ کی گئی تو پاکستان کو اِس تجاہل عارفانہ کا لازم خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے منظرعام پر آنے سے دو دن پہلے‘ محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) نے بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے متعلق خبردار کیا تھا کہ ملک میں شدید گرمی کی لہر آنے والی ہے اور اِس کا بظاہر محرک یہ ہے کہ بالائی فضا میں مسلسل دباؤ موجود ہے۔ ملک کے بڑے حصوں میں ہر سال مارچ کے دوران معمول کے درجہ حرارت سے تقریباً آٹھ سے دس ڈگری سنٹی گریڈ زیادہ ہو رہا ہے جو درجہ حرارت بڑھنے کی انتہائی غیرمعمولی (تیز) رفتار ہے۔ اس کے ساتھ ملک بھر میں بنا بارش گزرنے والا عرصہ بھی طویل ہو رہا ہے اور یوں خشک سالی کی مدت (عرصہ) بڑھتے چلا جا رہا ہے‘ جس کی وجہ سے کھڑی فصلیں اور آئندہ فصلیں متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ آبپاشی کی ضروریات کیلئے درکار پانی کم ہے۔

یہ صورت ِحال فوری ردعمل اور موسمیاتی تغیرات کے بارے فوری حکمت ِعملی وضع کرنے کا تقاضا کر رہی ہے تاکہ زرعی معیشت و معاشرت کو بچایا جا سکے۔زراعت کے حوالے سے حکومتی ترجیحات طے کرتے ہوئے اُن چھوٹے کاشتکاروں کے مفادات کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھا جا رہا جن کی کل جمع پونجی موسمیاتی اثرات و تغیرات کی وجہ سے داؤ پر لگی رہتی ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ کاشتکاری اب منافع بخش بھی نہیں رہی بالخصوص جب ہم سبزی اور پھلوں کی بات کرتے ہوئے ہیں تو اِن دونوں شعبوں سے وابستہ کسانوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ موسموں سے نبردآزما زرعی شعبے کو حالات اور منڈی کے قابل بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں اور ایسا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور یہاں صرف کھیتوں میں کام کرنے والے ہی نہیں بلکہ ملک کی ستر فیصد سے زیادہ افرادی قوت کا انحصار کسی نہ کسی صورت زراعت پر ہے۔ بنیادی ضرورت اور سوال یہ ہے کہ پاکستان میں آبپاشی (زرعی ضروریات) کیلئے دستیاب پانی کی مقدار ہر دن کم ہو رہی ہے۔ بارشیں روٹھ چکی ہیں جبکہ زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافہ لیکن زرعی اجناس کے معیار اور فی ایکڑ پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو رہا۔

کاشت اراضی کیلئے درکار پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جبکہ آبادی بڑھ رہی ہے جن کی غذائی ضروریات کیلئے زرعی اجناس کی کمی ہے جس کے باعث بیرون ملک سے درآمدات کرنا پڑ رہی ہیں اور پاکستان شدید ”غذائی قلت“ سے دوچار ہے! لیکن افسوس کہ کسانوں‘ کاشتکاروں کو بدلتے ہوئے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کی کوششیں اُس پیمانے پر نہیں ہو رہیں‘ جیسا کہ ہونی چاہیئں۔ اگر ہم جاری زرعی دورانئے (سیزن) کی بات کریں تو سندھ اور جنوبی پنجاب میں گندم کی کٹائی جلد شروع ہونے والی ہے جس کے بعد پانی کی قلت کے باعث صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ ضرورت پانی کے ”مؤثر انتظام“ کی ہے تاکہ پانی کے موجودہ ذخائر کی حفاظت اور اِن سے دانشمندانہ استفادہ کیا جائے۔

لائق توجہ ہے کہ کسانوں کو مشورہ اور رہنمائی کی کمی کی وجہ سے دستیاب پانی کی بہت بڑی مقدار ضائع ہو رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے کچھ طویل المدتی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔موسمیاتی تبدیلیاں صرف پاکستان ہی کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اِن سے دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی نمٹ رہا ہے اور یہ مرحلہئ فکر اُن سبھی دیگر ممالک کی حکمت ِعملیوں کا جائزہ لینے کا ہے جن کے اقدامات کا اشتراک اِس بات پر ہے کہ اُنہوں نے ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو کم کیا۔ یہ گیسیں اینٹوں کے بھٹوں سے لیکر صنعتوں کی چمنیوں سے اگلتے دھویں کے ساتھ فضا میں پھیل رہی ہیں اور شدید موسمی اثرات سے نمٹنے کی ہماری قومی صلاحیت کو کمزور کر رہی ہیں جبکہ ضرورت حملہ آور موسموں کے خلاف دفاعی اقدامات و انتظامات کی بھی ہے۔ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی سیلاب جیسی آفت کا شکار ہو اور جہاں سیلاب سے نمٹنے کا ’ٹریک ریکارڈ‘ قابل رشک نہیں دکھائی دے رہا ہو وہاں موسمیاتی تبدیلیوں کو تباہی پھیلانے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ اس حوالے سے تیاری میں اب تاخیر کی گنجائش ہر گز موجود نہیں۔