ایف آئی آر شہری کا حق

 ایک طویل عرصے سے کسی بھی جرم کی صورت میں عام آدمی پولیس کے پاس جاتا تو اس کی شنوائی تو دور کی بات پولیس اسکی بات سننے اور اس کا مقدمہ درج کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتی‘ کئی سالوں سے یہ عام سی بات بن گئی تھی کہ اگر آپ سے اسلحہ کی نوک پر نقدی‘ موبائل یا قیمتی اشیاء چھین لی گئی ہیں ڈکیتی ہوئی یا چور گھر یا دکان میں گھس گئے ہیں یا آپکی گاڑی یا موٹر سائیکل چھن گئی ہے یا چوری کرلی گئی ہے اور آپ قریبی تھانے یا چوکی جاتے ہیں تو آپ کو تسلی دی جاتی کہ جلد آپ کے چور مل جائینگے آپ بس ایف آئی آر درج کرانے پر اصرار نہ کریں اور پولیس پر بھروسہ رکھیں ہمارے ہاں چونکہ مروت کا کلچر ہے ساتھ ہی عوام کی اکثریت اپنے متعلقہ تھانے کے حکام کو ناراض کرنا ایفورڈ نہیں کر سکتے

اس لئے بیشتر کیسز میں ایف آئی آر نہیں ہوتی متعلقہ پولیس اہلکار چند دن سر گرمی سے پراگرس کے بارے میں بتاتے اور پھر شکایت کنندہ اور پولیس دونوں ہی بھول جاتے کہ ایسا کوئی حادثہ بھی ہوا ہے جب ایف آئی آر ہوتی ہے جو کہ ہر کسی کا بنیادی قانونی حق ہے اور جو پولیس کا فرض ہے تو اسکی باقاعدہ فائل بنتی ہے اسکی تفتیش ہوتی ہے اس میں ہونے والی پیش رفت سے افسران آگاہی حاصل کرتے رہتے ہیں یوں وہ کسی کسی نہ کسی حد تک متعلقہ پولیس سٹیشن کیلئے اہم رہتا ہے گزشتہ دنوں پشاور پولیس کی انتظامیہ میں تبدیلی کے ساتھ نئے کیپٹل سٹی پولیس افسر محمد اعجاز خان کی طرف سے جو سب سے پہلا حکم جاری کیاگیا وہ یہ تھاکہ نہ صرف  ہر آنے والے شخص کی باقاعدہ ایف آئی آر درج کی جائے بلکہ کئی مہینوں سے جو سینکڑوں کیسز روزنامچہ اور محض درخواستوں کی صورت میں زیر التواء ہیں انکو باقاعدہ ایف آئی آر میں تبدیل کرکے اس پر ضروری کاروائی شروع کی جائے۔

ساتھ ہی اعجاز خان نے نہ صرف متعلقہ ایس ایچ او اور محرر بلکہ علاقہ کے ڈی ایس پیز پر یہ واضح کیا کہ اگر انہیں ایسی کوئی شکایت موصول ہوئی کہ رہزنی‘ چوری‘ ڈکیتی کار یا موٹر سائیکل لفٹنگ یا کسی بھی واردات میں پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرکے متاثرہ شخص کو میٹھی گولی دیکر واپس کیا ہے تو ایس ایچ او کے ساتھ اس علاقہ کے ڈی ایس پی کے خلاف بھی کاروائی کی جائیگی۔ ان ہدایات کے بعد گزشتہ چند دنوں میں تقریباً350 روزنامچوں کو باقاعدہ ایف آئی آر میں تبدیل کرایا گیا ہے جو طویل عرصے سے زیر التواء تھے اور جن میں پولیس کسی قسم کی پراگرس  نہیں دے رہی تھی ایک سینئر افسر کے مطابق اگرچہ ایس ایچ اوز ڈی ایس پیز اور دیگر افسران اب بھی اس پر مکمل عملدرآمد سے گریزاں ہیں مگر چند دنوں میں اب تک موبائل چھیننے کے63 رقم چھیننے کے 26 نقب زنی کے4سرقہ عام کے13 موٹرسائیکل چوری کے178 موٹر سائیکل چھیننے کے39 کار چوری کے50 اور کار چھیننے کے3 زیر التواء مقدمات میں باقاعدہ ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے

مجموعی طور پر رورل ڈویژن نے158، کینٹ ڈویژن نے126،سٹی ڈویژن نے79 اور صدر ڈویژن نے 27روزنامچے ایف آئی آر میں تبدیل کرکے متاثرہ افراد کو کم از کم ابتدائی ریلیف دے دی ہے۔ اب بات انوسٹی گیشن ونگ اور دیگر شعبہ جات کی ہے کہ وہ کس حد تک موثر اور فوری انداز میں ان وارداتوں میں ملوث افراد پر ہاتھ ڈالتی ہیں اور لوٹی گئی رقم اور سامان برآمد کرتی ہیں۔ ایف آئی آر کے اندراج سے پولیس کے کام میں اضافہ ہوگا مگر ان کو یہ بات یاد رکھنی ہے کہ یہ عام آدمی کا حق ہے اور محکمے کا یہ فرض ہے اب تک اگر وہ یا سینئر افسران ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں تھے  تو اس کا فائدہ جرائم پیشہ افراد کو ہورہا تھا جن کے دل میں پولیس کی طرف سے کاروائی کا کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ انکے خلاف باقاعدہ مقدمہ نہیں ہوتا تھا جس سے جرائم کی شرح بے تحاشہ بڑھ گئی تھی۔