زندگی کا قافلہ اب ایسی وادی میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے جہاں کسی کو بھی اپنی ذات کے آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا، کل کاآ موختہ یار لوگوں کویا تو بھول گیا ہے یا پھر بھلا دیا گیا ہے اور بہانہ وہی کہ ہر دور اپنے تقاضے خود ترتیب دیتا ہے اور اسے نبھاتے نبھاتے گزشتہ کل کے سارے سبق بھول جاتے ہیں، میری نسل کے لوگ گواہی دیں گے کہ ان کی تربیت جس نسل نے کی اس نسل کا وتیرہ یہ تھا کہ گھر سے زیادہ محلّے اور علاقے کا خیال رکھا جاتا تھا، اپنی ذات پر ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دی جاتی تھی، مگر پھر جانے کیا ہوا کہ سب اپنے اپنے پسینے میں ڈوبتے چلے گئے اور کل کی ساری اقدار دیکھتے ہی دیکھتے قصّہ پارینہ بنتی گئیں اور سیانوں کو کہنا پڑا کہ کل تک جن گھروں میں بزرگ انتظار کیا کرتے تھے کہ کب کوئی مہمان آئے تو کھانا کھائیں، اب انہیں گھروں کے باسی اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ مہمان کب جائیگا تا کہ ہم کھانا کھائیں، یہ بدلاؤ کسی ایک گھر،گھرانے یا علاقے تک محدود نہیں ہے وہ جو ہم اپنے پچپن لڑکپن میں ہفتوں قریبی رشتہ داروں کے گھر وں میں پڑے رہتے تھے، اب وہاں تہواروں میں بھی رسماً جا کر فوراً لوٹ آتے ہیں،ہفتوں بلکہ مہینہ مہینہ بھر شادی کے گھر میں دھوم دھڑکا کرنے کیلئے کہاں کہاں سے رشتہ دار آ کر رہتے تھے وہ دن بھی اب خیال و خواب بن گئے، شادی ہال کلچر نے یہ رسم بھی کھا لی۔
ما ن لیں کہ اب محبت کی مہربانیوں کی وہ رت ہی نہیں رہی، اب تو نفسا نفسی کا موسم ہر نئے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتا چلا جا رہا ہے، جس دور میں ”پیسہ‘‘ سب سے بڑی ویلیو بن جائے اس دور میں پھر سب کچھ بکتا ہے،قتیل شفائی نے کہا ہے نا۔” زبانیں، دل، ارادے، فیصلے، جانبازیاں، نعرے، یہ آئے دن کے ہنگامے، یہ رنگا رنگ تقریریں۔صحافت، شاعری، تنقید، علم و فن، کتب خانے / قلم کے معجزے، فکرو نظر کی شوخ تصویریں۔یہاں ہر چیز بکتی ہے ۔ خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے“ خرید و فروخت کی گرم بازاری کسی نہ کسی صورت میں اب رائج الوقت سکہ بن گئی ہے، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس کا نتیجہ بے سکونی، اضطراب،بے کیفی اور بے یقینی کی شکل میں سامنے آتا ہے،آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے دن پھیکے پھیکے گزرتے ہیں اور شامیں بھی بقول ’گلزار‘ ”خالی ہاتھ شام آئی، خالی ہاتھ جائے گی۔“ سے ہٹ کر کچھ نہیں ہیں میں نے کبھی کہا ہے کہ
رات ہے، ظلم ہے، بے چینی ہے بے کیفی بھی
میں اکیلا ہوں مگر دیکھ ادھر کتنے ہیں
مایوسی اور بے کیفی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اچانک اگر کہیں سے سرشاری اور سندیسہ مل جائے تو شادی ئ مرگ کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ روز ایسی ہی ایک شام سے ملاقات ہوئی اس شام کی جھولی میں بہت سکھ تھا بہت اطمینان اور بہت ڈھارس تھی، کہیں کہیں ایک اداسی کی ایک زیریں لہر بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی کیونکہ یہ شام ان بے سہارا بچوں کی کفالت کے حوالے سے الخدمت فاؤندیشن نے ترتیب دی تھی جن بچوں کے سر سے ان کے والدین کا سایہ اٹھ گیا تھا، والدین خصوصاً والد کا سایہ سر سے ہٹتے ہی زمانے کے گرم و سرد کے لئے ایسے بچے کھلے آسمان کے نیچے وقت اور حالات کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں اور ان حالات میں جب کوئی بھی شخص اپنی ذات سے آگے دیکھنے کا روا دار ہی نہیں ہے، تو دوسروں کے بارے میں کون سوچے گا اور ایسے بچہ کے بارے میں جس کی نگہبانی والے ہاتھ اور آنکھیں باقی نہ رہی ہوں کون سوچے گا اور کیوں سوچے گا۔
اپنی ذات کے کھونٹے سے بندھے ہوئے اور اپنے اپنے پسینے میں ڈوبے ہوؤں کو کب اتنی فرصت میسرہے کہ وہ ایک لمحہ کو بھی یہ سوچیں کہ زندگی میں کشش اس وقت بڑ ھ جاتی جب ہم اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے لئے سوچتے ہیں کیونکہ ہم ایک ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں لوگ بہت بولنے لگے ہیں اور بولنے والوں کے پاس سننے کا وقت نہیں ہوتا، سن لیں تو بے معنی سوالات اٹھانے لگتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ ”ہم اگر دوسروں کی سیوا کے لئے پیدا ہوئے ہیں تو دوسرے یہاں کیا کر رہے ہیں“ لیکن ایسے میں اگر ایک چھت کے نیچے دوسروں اور خصوصاً یتیم اور بے سہارا بچوں کا دکھ سمجھتے ہوئے ان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے والا کوئی ایک نہیں کئی ایک ہم درد، دلسوز خیر بانٹنے والے اور یتیموں کے غمگسار اکٹھے ہوں تو اس کٹھور زمانے میں اس انہونی کو کیا نام دیا جائے، خوش بختوں کا یہ اکٹھ، جنگ، امن اور قدرتی آفات کے کٹھن موسموں میں انسان کے دکھوں پر اپنی محبت اور خدمت کے ٹھنڈے پھاہے والی ،چار دانگ عالم میں مشہور اور معروف تنظیم ”الخدمت فاؤنڈیشن“ کے یتیم بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے والے پراجیکٹ ”آغوش“ میں اپنا حصّہ ڈالنے کے لئے اس شام اس جذبے سے سرشار نظر آ رہا تھا کہ ”نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں“۔
الخدمت فاؤنڈیشن ویسے بھی اب ایک تنظیم یا ادارہ نہیں رہا یہ تو اللہ کی مخلوق کی دامے، درمے، سخنے گویا تن من دھن کی قربانی اور بے لوث خدمت کا ایک استعارہ بن گیا ہے، یہ نام سنتے یا پڑھتے ہی سر عقیدت اور محبت سے جھک جاتا ہے، چند ایک بچوں کی تعلیم و تربیت اور ہر طرح کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے والی الخدمت فاؤنڈیشن کا پراجیکٹ ”آغوش“ اب انیس ہزار سے زیادہ بچوں کی کفالت کر رہا ہے اور اس افرا تفری کے دور میں اس سکھ بھری شام نے دیکھا کہ اْس چھت کے نیچے یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے، ایک دوسرے پر سبقت لے جانیوالے ہمدرد غمگسار اور خدمت خلق کے جذبے سے شرابور اور سرشار خوش بختوں نے چند دقیقوں میں 9 ہندسوں کی ایک خطیر رقم آغوش کے نام کر دی۔تقریب کے بہت ہی شستہ پر تاثیر لب و لہجے کے خوبصورت کمپیئر کے مطابق یہ رقم، فاؤنڈیشن کی توقعات اور ٹا رگٹ سے کہیں زیادہ تھی۔ میری خوشی یہ بھی تھی کہ میرے شاگرد حمید اللہ نہ صر ف اس فاؤنڈیشن سے جڑے ہو ئے ہیں بلکہ خا صا فعال کردار بھی ادا کر رہے ہیں اس نے میرے پاس آ کر مجھے تھیلی سیمیا کے مرض میں گرفتار بچوں کیلئے فاؤنڈیشن کی خدمات کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور آغوش کے پشاور میں ایڈمنسٹریٹر ظہور محمد اور دوست عزیز ڈاکٹر خادم ابراہیم نے بھی نہ صرف قیمتی معلومات دیں بلکہ ”آغوش“ کے وزٹ کی دعوت بھی دی جس کا میں پہلے ہی تہیہ کر چکا تھا۔ اس شام میں بہت خوش تھا کہ ابھی حالات میں اتنا بگاڑ پیدا نہیں ہوا کہ یار لوگوں کو اپنی ذات کے آگے کچھ بھی دکھائی نہ دے، ابھی ایسے لوگ اور ادارے موجود ہیں جو عرش بریں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اہل زمین کے دکھوں پر پھاہے رکھ رہے ہیں، حفیظ جونپوری کی بات اب سن لینی چاہیے۔
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہیے انساں کو انساں کی طرف