کرکٹ: ٹیم گرین کی واپسی

سیاسی منظرنامے نے دیگر بہت سی خوبیوں یا یکساں اور زیادہ اہم خبروں کو نظروں سے اوجھل کر دیا ہے اور اِسی اہم خبر میں آسٹریلین ٹیم کا دورہ بھی شامل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پنڈی کی مردہ وکٹ پر بوریت ہی نتیجہ نکلنا تھا‘ جو حسب توقع برابری کی صورت سامنے آیا لیکن کرکٹ نے پوری قوم کی توجہ اُس وقت حاصل کی جب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ٹیم گرین کے کپتان بابر اعظم کے 196 رنز نے آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ جیتنے سے روک دیا جبکہ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا مذکورہ دوسرا میچ آسٹریلیا جیتنے کیلئے تیار ہے جنہوں نے پہلی اننگز میں شاندار اور فیصلہ کن برتری حاصل کر لی تھی لیکن پاکستان کی کرکٹ کا یہی تو خاص پہلو ہے کہ ہمارے کھلاڑی واپسی کرتے ہیں اور تاریخ میں کئی ایسے واقعات محفوظ ہیں کہ جب پاکستانی کھلاڑی ڈٹ جائیں تو کرکٹ کے سبھی اعدادوشمار اور مضبوط سے مضبوط ٹیم کی حکمت عملیاں بھی ناکام ہو جاتی ہیں۔
 رضوان اور عبداللہ شفیق کے اچھے کھیل اور ذمہ دارانہ کردار کی وجہ سے ٹیم گرین مشکلات میں ہونے کے باوجود بھی بمشکل کراچی ٹیسٹ ”ڈرا‘‘ کرنے میں کامیاب رہی اور ایسا اِسلئے عجوبہ ہے کیونکہ نیشنل سٹیڈیم کی پچ بہت ہی مشکل اور غیرمتوقع طور پر ڈرامائی نتائج دینے کے لئے بنائی گئی تھی۔ آسٹریلیا کے طاقتور باؤلنگ اٹیک کے خلاف 171.4 اوورز تک کا کھیل اپنی جگہ ایک تاریخ ہے اور اِس قدر لمبے میچ میں آسٹریلیا باوجود صلاحیت رکھنے کے بھی ٹیم گرین کو ڈھیر نہ کر سکا اور ایک ٹیسٹ میچ کی شکست کو بمشکل سہی لیکن بچا لیا گیا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں شاید یہ واحد ایسا موقع ہے کہ کسی ٹیم نے میچ بچانے کیلئے اتنے زیادہ (171.4) اوورز کھیلے ہوں۔ سال 1939ء میں ایک مرتبہ ایسا ہوا تھا۔
 آسٹریلیا نے جب پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کی دوسری اننگ کا اعلان کیا اور پاکستان کو جیت کے لئے 506 رنز جیسا بڑا ہدف دیا تو بہت سے لوگوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستان میچ بچا پائے گا۔ پاکستان کے اپنے تجزیہ کار بھی اُمید کا اظہار نہیں کر رہے تھے اور شاید شائقین کی ایک تعداد ایسی بھی ہو جنہوں نے میچ دیکھنا ہی بند کر دیا ہو کیونکہ جیت تقریباً ناممکن لگ رہی تھی لیکن پھر وہی جادو ہوا‘ جس کے لئے ٹیم گرین مشہور ہے کہ بابر نے سب سے پہلے شفیق کے چھیانوے رنز کی ناقص اننگز کی مدد سے اپنی اننگ کو آگے بڑھایا اور پھر رضوان کے ساتھ شاندار شراکت داری کے ساتھ آسٹریلیا کو تقریباً دفاع پر مجبور کر دیا اور ایک موقع پر تو آسٹریلین ٹیم ”بیک فٹ‘‘پر دیکھی گئی۔ بابر اور رضوان کی اچھی کارکردگی نے ایک اہم مقابلہ (میچ) بچانا میں کلیدی کردار ادا کیا اور یوں بابر کرکٹ کے کئی ریکارڈ توڑ دیئے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں پاکستان نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور کراچی ٹیسٹ یقینا پاکستان کے لئے یادگار ڈرا کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آسٹریلیا بمقابلہ پاکستان تیسرا اور آخری ٹیسٹ (اکیس سے پچیس مارچ) قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے گا۔پاکستان کی جیت کے امکانات نسبتاً زیادہ یعنی 34فیصد‘ آسٹریلین ٹیم کی جیت کے امکانات 31 فیصد جبکہ اِس میچ کے برابر ہونے کے امکانات 35 فیصد ہیں۔“