سکرین کے قیدی 

کچھ موضوعات اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں ان کو تکرار کے ساتھ دہرایا جائے کیونکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کے حوالہ سے بات کرنے کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ان میں سے سوشل میڈیا بھی ایک ہے کہاجاتاتھاکہ تیز رفتار مواصلاتی ترقی کی بدولت دنیا گلوبل ویلج بنتی جارہی ہے یعنی فاصلے سمٹتے جارہے ہیں اور مختلف ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے جارہے ہیں ہماری جیسی نسل نے تو اپنی آنکھوں سے یہ تیزرفتارتبدیلیاں دیکھی ہیں۔غالباً1991ء کی با ت ہے ہمارے ایک پھوپھی زاد بھائی عبدالرحمن سہیل میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لئے سوویت یونین گئے ان کیساتھ اس وقت رابطہ کسی خواب سے کم نہ تھا اس نے جو خطوط ہماری طرف روانہ کئے تھے وہ کئی ماہ بعد ہمیں ملے اس میں ہمارے تایا یعنی اپنے ایک ماموں کے نام بھی ایک خط تھا اوروہ خط جب ہمارے پاس پہنچا تو اس وقت تک ہمارے تایا جان کو اس دنیا سے رخصت کئی ہفتے ہوچکے تھے۔عبدالرحمن سہیل پھر ر وس کے ہوکر رہ گئے اور اب ان کے ساتھ دن میں کئی باررابطہ رہتاہے۔
یہاں تک تو با ت ٹھیک ہے کہ سوشل میڈیا نے دور کے لوگوں کو قریب کردیاہے مگر اس سے بھی انکار نہیں کہ اسی سوشل میڈیا نے قریب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے بہت دورکرناشروع کیاہے مثال کے طورپر چندروز قبل کی بات ہے کہ دوستوں کے ساتھ کھانے کی محفل سجی ہوئی تھی ساتھ ہی ایک اورگروپ نوجوانوں کا بیٹھاہوا تھا شاید یونیورسٹی کے طلبہ تھے آئے تو کھانے کے لئے اور گپ شپ کے لئے،مگر حالت یہ تھی کہ ہرایک نے اپنے اپنے موبائل کو پکڑکراس پر نگاہیں جمارکھی تھیں اور سوشل میڈیا کے حصار میں خود کو باندھا ہواتھا اس کے بعد کھاناآیا کھانا کھاکرسب ایک مرتبہ پھراپنی اپنی دنیا میں لوٹ گئے حالانکہ دوستوں کے اکٹھا کھانے کامقصد باہم مل بیٹھ کر ایک دوسرے کو سننا اور اپنے اپنے دلوں کابوجھ ہلکا کرنا ہوتا ہے مگر اب صورتحال بدلنے لگی ہے جب سے سوشل میڈیا کا جادوسرچڑھ کربولنے لگا ہے اور ساتھ ہی سمارٹ فون چھانے لگے ہیں تب سے ہمارے نوجوان تیز ی سے سکرین کے قید ی بنتے جارہے ہیں اس کی وجہ سے آج کئی قسم کی قباحتیں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔
زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال اور توازن کا دامن تھامے رکھنا،کامیابی کا گر اور سمجھداری کا تقاضا ہے لہٰذا جس طرح سے دوست بنانے اور مختلف لوگوں سے میل جول رکھنے میں اعتدال ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ سوشل نیٹ ورکنگ میں احتیاط کی ضرورت ہے آجکل ان باتوں کارجحان حد سے زیاد ہ بڑھ گیا ہے،جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں سماجی ذرائع ابلاغ(سوشل میڈیا) باہمی رابطے کا ایک موثر ذریعہ بن چکا ہے یہاں تک کہ اسے ایک متبادل ذریعہ ابلاغ قرار دیا جا رہا ہے۔عام ذرائع ابلاغ سے جو خبریں اور معلومات سامنے نہیں آپاتیں وہ اس وسیلے سے سامنے آجاتی ہیں اور کبھی تو اس قدر اہمیت اختیار کرتی ہیں کہ اخبارات اور ریڈیو ٹی وی کا موضوع بھی بن جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج سوشل میڈیا کا استعمال عام ہو چکا ہے ایک شخص دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا پیغام چند لمحوں میں دوسروں تک نہ صرف پہنچا سکتا ہے بلکہ اپنے ہم خیال لوگوں سے مشترکہ طور پر تبادلہ خیال بھی کر سکتا ہے گویا انگلی کی پوروں پرہر آدمی کی ہم خیال دنیا موجود ہے جب سے سمارٹ فون مارکی ٹ میں آئے ہیں تب سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ شناختی کارڈ کی طرح کی کوئی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ 
ہر شخص خواہ کسی بھی عمر کا ہو کسی بھی صنف اور شعبے سے ہو‘ وہ سماجی ذرائع ابلاغ پر بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔سوشل میڈیاکی ایک بڑی قباحت لوگوں کو تنہا کرنیکی صورت میں بھی سامنے آئی ہے،سماجی رابطو ں کی ویب سائٹس کو عام طور پر دنیا بھرکے انسانوں سے جڑنے اورروابط بڑھانے کا اہم ترین ذریعہ سمجھاجاتاہے۔ان پلیٹ فارمز کے ذریعے صارفین اس بات سے آگاہ رہتے ہیں کہ انکے دوستوں،رشتہ داروں سمیت انکی جان پہچان کے دیگر افراد کی زندگی میں کیاہورہاہے انکا کزن کس ریسٹورنٹ میں کھانا کھارہاہے،یاکسی دوست کی شادی کس روز ہے،لیکن اب امریکی ماہرین نفسیات نے ان ویب سائٹس یا با الفاظ دیگر سوشل میڈیا کو تنہائی پھیلانے کی وجہ قراردے دیاہے۔نئی تحقیق کے مطابق سوشلائزیشن کااہم ذریعہ سمجھی جانے والی یہ ویب سائٹس سماجی علیٰحدگی پیداکرنے کااہم سبب ہیں امریکی ماہرین کی اس کھوج کے مطابق روزانہ دو گھنٹے سے زائد سوشل میڈیا کاستعمال لوگوں کو تنہا سمجھنے پر مجبورکرسکتاہے انکے مطابق جو شخص دن کا زیادہ حصہ ان ویب سائٹس پر آن لائن رہ کرگزارتاہے وہ حقیقی زندگی میں لوگوں سے کم رابطہ کرپاتا ہے۔انسٹا گرام اور فیس بک پرایسی تصاویر دیکھ کر جن میں انکے دوست بہترین پارٹی یا فنکشن کاحصہ ہوں،صارف خود کواکیلا محسوس کرسکتاہے۔
ماہرین نے اپنی تحقیق کے دوران انیس سے بتیس سال کی عمر کے دوہزار افراد کو شامل کیا تھا انکی رپورٹ کے مطابق یہ ایک اہم معاملہ ہے انسان ایک سماجی مخلوق ہے لیکن جدید دور نے ہمیں تقسیم کردیاہے ان کامزید کہنا ہے کہ ایک طرف ایسا لگتاہے کہ سوشل میڈیا سماجی روابط میں موجود خلا ء کو پرکرتاہے وہیں اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ لوگوں کاسوشل میڈیا کو حقیقی زندگی کے روابط کی جگہ دینا درست نہیں اسی طرح امریکی ماہرین کے مطابق فیس بک کو مسلسل چیک کرتے رہنے کی عادت آپ کے دماغ کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا سائٹس جیسے فیس بک وغیرہ کو مسلسل چیک کرتے رہنا دماغ کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں انسانی دماغ میں عدم توازن کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔
تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دماغ کے دو مختلف میکنزم اس عادت کے نتیجے میں متاثر ہوتے ہیں جن میں سے ایک خودکار اور رد عمل کا اظہار کرتا ہے جبکہ دوسرا رویوں کو کنٹرول اور دماغی افعال کو ریگولیٹ کرتا ہے یہ دوسرا نظام لوگوں کو بہتر رویئے اپنانے اور اضطراب پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے تاہم تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ فیس بک کا بہت زیادہ استعمال دماغ کے دونوں نظاموں پر منفی اثرات مرتب کر کے عدم توازن پیدا کرتا ہے اسکے ساتھ ساتھ فیس بک کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں طالبعلم امتحانات میں زیادہ اچھے نمبرز لینے میں کامیاب نہیں ہوپاتے ‘ ان تمام تلخ حقائق کے بعد اس پرکوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ سوشل میڈیا کے استعما ل میں اعتدال اور احتیاط بہت ضرور ی ہوگئی ہے ہماراسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملہ میں اعتدال کے قائل نہیں اس کی وجہ سے ہمارے ہاں بگاڑ بڑھتاجارہاہے۔