دسمبر دوہزارپندرہ: امریکی ایوانِ نمائندگان (قانون ساز ادارے) کی مسلمان ڈیموکریٹ رکن ’الہان عمر‘ کے کئی ایسے جملے ہیں جنہیں امریکی قانون ساز ایوان کی کاروائی سے حذف کیا گیا۔ چودہ دسمبر دوہزارپندرہ کو جس وقت الہان عمر کے اسلامو فوبیا کے خلاف پیش کئے گئے ایک مسودہئ قانون (بل) پر بحث ہو رہی تھی تو ری پبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس سکاٹ پیری نے یہ دعویٰ کیا کہ الہان عمر کا تعلق ”دہشت گرد تنظیم“ سے ہے۔ سکاٹ پیری کے بقول امریکی عوام کا پیسہ دہشت گرد تنظیموں کو نہیں جانا چاہئے‘ جن سے اس بل کی معمار الہان عمر کا بھی تعلق ہے۔ بعد میں کانگریس نے الہان عمر کا پیش کردہ بل (اسلاموفوبیا کے خلاف قانون) منظور کر لیا جس کے حق میں تمام ڈیموکریٹس اور مخالفت میں تمام ری پبلکنز نے ووٹ دیا اور سکاٹ پیری کے اِن الفاظ کہ جس میں اُنہوں نے ’الہان عمر‘ کو دہشت گرد تنظیم کا رکن کہا تھا ایوان کی کاروائی سے حذف کر دیا گیا۔ یہ ایک مثال کو اِس لئے پیش کیا گیا تاکہ دنیا میں اسلام کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرنے کی جاری کوششوں کو بیان کیا جا سکے۔امریکہ کے قانون ساز ایوان کی رکن ’الہان عمر‘ کے پیش کردہ مذکورہ قانون کا نام ”بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ“ ہے جس کا مقصد کہ امریکی محکمہ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندے کی تعیناتی کرنا تھی جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات پر نظر رکھے۔ اِن واقعات کی تفصیلات جمع کرے اور اِن واقعات کی تفصیلات کو امریکی محکمہ خارجہ کے علم میں لائے۔ قانون میں کہا گیا کہ اس نمائندے کی تعیناتی امریکہ کے صدر کی مرضی سے ہو گی۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ اِس قسم کا ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمہ خارجہ میں تعینات ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کی تفصیلات کو جمع کر کے اِسے محکمہئ خارجہ کو رپورٹ کرنا ہے۔ ”بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ“ کرنے سے متعلق قانون گذشتہ کئی مہینوں سے ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی میں زیربحث رہا جسے طویل بحث کے بعد منظور کیا گیا۔مارچ دوہزاربائیس: وزیراعظم اقوام متحدہ کی جانب سے ”اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن“ منانے کی قرارداد (اعلان) کا خیرمقدم کرتے ہوئے پندرہ مارچ کے روز جاری اپنے ٹوئیٹر پیغام میں اُمت مسلمہ کو مبارک باد پیش کی اور کہا ”اسلاموفوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف ہماری آواز سنی گئی۔ وزیراعظم پاکستان بننے سے پہلے بھی عمران خان اپنے غیرملکی دوروں یا غیرملکیوں سے ملاقات میں اسلاموفوبیا کے مسئلے اور اِس پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو اُجاگر کرتے رہے ہیں۔ اِس خاص تناظر میں عمران خان کی برسوں سے جاری کوششیں یقینا رنگ لائی ہیں جنہوں نے پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے مسلمان عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسلاموفوبیا کے بارے میں عالمی سطح پر بات چیت کریں اور مسلمانوں کے خلاف پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔ حقیقت ِحال یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں جبکہ قرآن کریم و احادیث (ارشاداتِ) نبوی ؐکے تراجم و تفاسیر دنیا کی ہر زبان میں موجود ہیں اور اسلامی تاریخ بھی ’آن لائن‘ دستیاب ہے جسے ایک بٹن دباتے ہوئے کسی بھی زبان میں باآسانی ترجمہ کیا جا سکتا ہے لیکن اِسلاموفوبیا کی وبا امریکہ اور مغربی (یورپی) میں پائی جاتی ہے اور اچھے خاصے دانشور بھی اپنی تقاریر‘ بیانات‘ تبصروں‘ تجزئیات یا خطبات میں کہیں نہ کہیں اسلاموفوبیا کا ذکر کر بیٹھتے ہیں اور یہ سب اُس سازش (عالمی مہم کا نتیجہ) ہے جو امریکہ پر ’نائن الیون‘ دہشت گرد حملوں کے بعد سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم انداز میں کی گئی۔ ہالی ووڈ کی فلموں سے لیکر ادارتی مضامین کے استعاروں تک پورے عالم اسلام اور ہر مسلمان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جانے لگا جس کی وجہ سے یورپ و امریکہ میں مسلمانوں اور بالخصوص مہاجرین کے ساتھ تعصب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے چونکہ ”اسلاموفوبیا“ ایک حقیقت ہے‘ جس کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں اِس لئے اقوام متحدہ نے رکن ممالک کی اکثریت کی ترجمانی کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہر سال پندرہ مارچ ”اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن“ کے طور پر منایا جائے گا اور یہ فیصلہ جو بطور قرارداد سامنے آیا ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بہت ہی خاص بلکہ خاص الخاص اہمیت رکھتا ہے۔ اسلاموفوبیا صرف یورپ اور امریکہ ہی میں نہیں پایا جاتا بلکہ یہ بھارت میں بھی عام ہے‘ جہاں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور انتہاپسندی کے لئے ”ہندوتوا“ کہلانے والے نظریئے کی حکمراں سیاسی جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)‘ علی اعلان سرپرستی کر رہی ہے اور بھارت کی کئی ریاستوں بالخصوص کشمیر میں مسلسل مسلم مخالف ریاستی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ سالہا سال پر محیط ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جبکہ رواں ہفتے بھارت کے صوبے ’کرناٹک‘ کی ایک عدالت نے ریاستی حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں میں طالبات (لڑکیوں اور خواتین) کے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی کو جائز قرار دیا اور اِس پابندی کو برقرار رکھا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلاموفوبیا کس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب بھارت میں مسلمان خواتین اگر چاہیں تو اپنا سر اور چہرے کا کچھ حصہ کسی چادر یا ڈوپٹے سے ڈھانپ کر بھی نہیں رکھ سکتیں۔ خطرہ یہ ہے کہ کرناٹک کی پیروی کرتے ہوئے بھارت کی دیگر ریاستیں بھی اسی قسم کے فیصلے اور اقدامات کریں گی جو درحقیقت مسلمان خواتین کے ساتھ‘ اُن کے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے اور یہ امتیازی سلوک انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے لمحہ فکریہ ہے کہ دنیا مسلمانوں کے لباس سے بھی خوفزدہ ہے‘ جو اِس بات کا بیان ہے کہ دنیا کیلئے سب کچھ قابل قبول ہے لیکن وہ اگر کوئی ایک حق دینے کو تیار نہیں تو وہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام پر عمل نہ کریں جبکہ دنیا کو سمجھنا چاہئے کہ اگر دنیا کی مسلمان آبادی عمل کے لحاظ 100 فیصد اسلام میں داخل ہو جائے اور یہ پریکٹسنگ مسلم (عملی طور پر بھی مسلمان) بن جائیں تو اِس سے دنیا کی ایک ایسی ذمہ دار آبادی میں اضافہ ہو گا جس کے ہاتھ‘ پاؤں‘ زبان الغرض جملہ اعضا سے سوائے امن و سلامتی اور تعمیر کے کچھ عام نہیں ہوگا۔ سمجھنا اور سمجھانا ہو گا کہ دنیا کیلئے اسلام نہیں بلکہ وہ نظریات جیسا کہ سیکولرازم خطرہ ہے جو انسانی آزادی پر قدغن لگاتا ہے جو مسلمانوں کے درپے آزار ہے!