اسلاموفوبیا 

اسلامو فوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کی منظوری یقینا بہت بڑی کامیابی ہے جس میں پاکستان کے کردار کو کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا موجودہ دور میں کہ جب اسلاموفوبیا کی جڑیں گہری ہوتی جارہی ہیں عالمی سطح پر اس حوالہ سے سالانہ ایک د ن منانے سے یقینی طورپر اسلام کے خلاف پھیلا ئی جانے والی بے بنیاد نفرت کو کم کرنے اور ا صل حقائق سامنے لانے میں مد د مل سکے گی دین  اسلام اور عمومی طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت، تعصب یا اس مذہب اور اس کے پیروکاروں سے بعض لوگوں میں پائے جانے والے خوف کے لیے اسلامو فوبیا کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم اس کی در حقیقت تعریف کیا ہے، یہ الگ بحث کا موضوع ہے اسلامو فوبیا دو الفاظ کا مرکب ہے اسلام اور فوبیا۔ لفظ فوبیا یونانی اصطلاح ہے۔جس کے انگریزی میں معنی ہیں کسی چیز کے خوف میں مبتلا ہونا، اسلامو فوبیا یعنی اسلام کا خوف پچھلی کچھ دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کیلئے کچھ مخصوص قسم کی اصطلاحیں وجود میں آئی  ہیں۔ انہی میں سے ایک اصطلاح اسلاموفوبیا بھی ہے۔
فوبیا یعنی کسی چیز کا ڈر اور خوف۔ اسی سے لفظ اسلاموفوبیا بنا اور یہ نئی اصطلاح شروع ہوئی یہ سیاسی طور پر اسلام کے خوف کو کہتے ہیں یعنی یہ ڈر کہ اسلام پوری دنیا میں چھا جائے گا اور کچھ دنوں بعد اسلامی حکومت ہوگی اسی کا نظام چلے گااور بقول امریکی وزیر خارجہ جان کیری ”دنیا کی تاریخ اسلامی خلافت کی نگرانی میں لکھی جائے گی“۔اسی طرح آکسفورڈ کی ڈکشنری میں بھی ”اسلام کے ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے کا ڈر اور خوف“ کواسلامو فوبیا کہا گیا۔یوں تو ہم جانتے ہیں کہ فوبیا کسی چیز سے بہت زیادہ ڈر جانے اور خوف کھانے کا نام ہے خواہ حقیقت میں ایسا ہویا نہ ہو گویا انجانا سا خوف اور ڈر جو دل و دماغ اور اذہان پر چھا جائے، اسے فوبیا کہتے ہیں۔اسے موجودہ دور کا المیہ کہیں یا سازش کہ یہ حملہ مذہب پر کیا جا رہا ہے اسے ایک خاص مذہب اسلام سے جوڑ کر اسلامو فوبیا کا نام دیا جا رہا ہے اوریہ اسلئے کہ اسلام پوری دنیا میں چھا جائے گا کیونکہ وہ اپنے اندر بے پناہ جاذبیت اور کشش رکھتا ہے نیز اسلام کی تعلیمات اسلام کے اصول و قوانین مثلاً رواداری، انسان دوستی، غرباء پروری،امن و آشتی، اخوت اور محبت بھائی چارگی عورتوں کے ساتھ انصاف،والدین کے ساتھ حسن سلوک،بوڑھوں اور بچوں کے حقوق وغیرہ جیسی تمام اخلاقی قدروں پر بھلا کسی کو کیسے اعتراض ہو سکتا ہے؟لیکن اسکے باوجود بھی اسلام کے درپے ہونا صرف اور صرف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آج ساری دنیا کو اسلامی تہذیب و کلچر،اسلامی تعلیمات کے چھا جانے اور دنیا کے اس کی طرف راغب ہوجانے کا ڈر اور خوف ہے اور یہ ڈر اور خوف کس کو ہے؟
 ان غالب تہذیبوں کو ہے جو خود اپنے مذہب کے اصول اور قوانین اور ضابطہ حیات کو بالائے طاق رکھ کر دنیا میں من مانی کرتی پھر رہی ہیں ان غالب تہذیبوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کے شرارتی اور گھناؤنے اصولوں کو خطرہ صرف اور صرف اسلام سے ہے اسلئے وہ اسلام کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے عوام میں دہشت پھیلا رہی ہیں اور خوف و ہراس کا ماحول گرم کر رہی ہیں چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں پچھلے چالیس پچاس سالوں سے بہت ہی منظم طریقے اور چالاکی کے ساتھ ایسے طریقے اپنائے جا رہے ہیں کہ اسلام اور مسلمان کو مختلف مسائل میں الجھا کر رکھا جائے اور ہر طرف یہ پروپیگنڈہ کر دیا جائے کہ اسلام ایک دہشت گرد مذہب اور مسلمان ایک دہشت گرد قوم ہے یہ ایک مرض اور بیماری ہے جو کسی وبا کی طرح تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہم جب اس کی گہرائی میں جا کر جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام اس وقت پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن کر ابھرا ہے مثلاً فرانس، پولینڈ اور امریکہ وغیرہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہاہے لہذا آج کے دور کا یہ سب سے بڑا چیلنج ہے اور غالب قومیں اس سے خطرہ اور ڈر محسوس کررہی ہیں ان کی نظر میں اگر اسے نہیں روکا گیا تو یہ ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ان حالات میں ہمارے ملک کو یہ اعزازحاصل ہوا کہ اس نے اقوام متحدہ میں اس حوالہ سے قرارداد پیش کی جو پندرہ مارچ کو منظور ہوچکی ہے  جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والی اس قرارداد کو او آئی سی کے ستاون ممالک سمیت آٹھ دیگر ملکوں کی  حمایت حاصل ہوئی جن میں چین اور روس جیسے ممالک بھی  شامل ہیں۔
کئی رکن ممالک نے اسلاموفوبیا مخالف  عالمی دن  کی قرار داد کو خوش آمدید کہا  اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے اس نفرت کا خاتمہ ہو اور اسلام کے بارے میں درست نقطہ نظر دنیا کے سامنے آئے۔ بھارت نے اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ فرانس اور یورپی یونین  میں شامل ممالک کے نمائندوں نے بھی اس پر اعتراض کیا۔جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کو پاکستان نے بڑی کامیابی قرار دیا ہے وزیراعظم عمران خان نے اپنی  ٹویٹ میں کہا کہ اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف ہماری آواز کو عالمی سطح پر سناگیا اوراقوام متحدہ نے او آئی سی کی پیش کردہ اْس تاریخی قرارداد کو منظور کیا جو پاکستان کی طرف سے متعارف کرائی گئی تھی۔ عمران خان نے مزید کہا کہ اسلامو فوبیا‘ مذہبی علامات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں‘ مسلمانوں کے خلاف منظم نفرت انگیز تقاریر اور امتیازی سلوک سنگین چیلنجز ہیں جنہیں دور کرنا بہت ضروری ہے۔ اس قرارداد کا اور اس قسم کے دوسرے اقدامات کا بنیادی مقصد اسلام کے بارے میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود غلط تصورات کو درست کرنا ہے۔ کیونکہ بار بار یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ مسلمان دنیا میں سب سے پسماندہ  اور تنگ نظر قوم ہے‘ اکثر مسلمان عورتوں کو نشانہ بنا کر کبھی ان کے سکارف پر حملے کر کے کبھی ان کے انسانی حقوق کو پامال کر کے انہیں پردہ کرنے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے‘کبھی کھلے عام مسلمانوں پر زہر اگلا جاتا ہے اور مغربی میڈیا ہو یا اندرون ملک کا میڈیا کھلے عام زہراگل رہے ہیں۔ نفرت کے ماحول کو اور زیادہ گرم کر رہے ہیں ان حالات میں مسلمانوں کو متحد ہوکر ’نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر‘ ان طاقتوں کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنا اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلا ی جا رہی ہیں انہیں دور کرنا چاہئے‘ لوگوں سے مل کر ان کے اندر سے نفرت کو ختم کرنا چاہئے‘حالات خواہ کتنے ہی ناگفتہ بہ ہوں ہمت نہیں ہارنی چاہیے بقول علامہ اقبال
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
بھارت فرانس اوریورپی یونین نے قرارداد کی مخالفت کرکے اپنا اصل چہرہ ایک بار پھر بے نقاب کردیاہے جس کے بعدان سے عالمی سطح پر اسلام کے حوالہ سے متوازن سوچ کی امید رکھنا یقینا بے وقوفی ہوگی۔