کارکردگی کے رنگ

آسٹریلیا کے خلاف کپتان بابر اعظم کے کھیل کا نیا رخ سامنے آیا ہے۔ دنیائے کرکٹ کی بہترین ٹیموں میں شمار ہونے والی ’آسٹریلیا‘ کے دورہئ پاکستان درحقیقت ٹیم گرین کا امتحان تھا بالخصوص بیٹسمینوں کیلئے کہ کیا یہ بڑی اننگز کھیل پائیں گے؟ مقابلے شروع ہوئے تو پہلا ٹیسٹ آیا جو سلو وکٹ‘ دفاعی سوچ اور امام الحق اور عبداللہ شفیق کی بہترین بیٹنگ میں گزر گیا۔ دوسرے ٹیسٹ کا آغاز بھی ویسا ہی تھا۔ ایک ایسی سست وکٹ جس پر آسٹریلیا نے دو دن سے زیادہ بیٹنگ کی‘ اب ٹیسٹ میں کیا بچا تھا؟ یعنی اگر قومی ٹیم نے اچھی بیٹنگ کی تو ایک اور ڈرا میچ ہمیں دیکھنے کو ملے گا اور اگر خراب کھیلا تو شکست کی ندامت۔ اس ٹیسٹ میں قومی ٹیم اور بابر اعظم کے لئے اور کچھ نہیں رکھا تھا۔ اگلے چوبیس گھنٹے ایسے ہی تھے۔ پہلی اننگ میں جب پوری ٹیم 148 رنز پر ڈھیر ہوگئی تو آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے اس مایوسی میں مزید اضافے کیلئے دوبارہ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا لیکن کمنز کا یہ فیصلہ شاید آسٹریلیا سے زیادہ پاکستان کے حق میں تھا۔ ایک حوصلہ ہاری ہوئی بیٹنگ لائن کو اگر اس وقت سترہ اوور فیلڈنگ کے بجائے بیٹنگ کرنی پڑجاتی تو شاید میچ اختتام کے پاس پہنچ سکتا تھا۔ کمنز نے پاکستان کو 172اوورز میں 506رنز کا ہدف دیا تو خیال تھا کہ چوتھے دن شام تک یا پانچویں دن لنچ تک میچ ختم ہوجائے گا۔ جس وقت بابر کریز پر آئے تو ابھی پاکستان کو 150اوورز مزید بیٹنگ کرنی تھی۔
 میچ کی چوتھی اننگ میں بابر اعظم کا اس وقت تک زیادہ سے زیادہ سکور 59 تھا جو 2018ء میں آئرلینڈ کے خلاف بنا تھا لیکن یہاں رنز بنانے سے زیادہ اہمیت دیر تک وکٹ پر وقت گزارنے کی تھی۔ جو لوگ ابتدائی دو دن میچ سے دور رہے تھے اب انہوں نے بھی میچ میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور جو پہلے صرف سکور دیکھ رہے تھے وہ اب میچ دیکھنے لگ گئے تھے۔ تیسرے سیشن کا آغاز بابر اعظم کی نصف سنچری سے ہوا اور اختتام سے ذرا پہلے سنچری مکمل ہوگئی۔ چوتھے دن کا خاتمہ ہوا تو بہت سے سوال شائقین کے دلوں میں اور زبانوں پر تھے۔ کیا پاکستان میچ جیت سکتا ہے؟ کیا بابر اعظم ڈبل سنچری بنا پائیں گے لیکن سب سے بڑا سوال تھا کہ کیا نیا دن ایک بار پھر بابر کی وکٹ تو نہیں لے جائے گا؟ بابر اعظم نے دن کا پہلا رنز بنایا تو بے شمار لوگوں نے سکون کا سانس لیا‘ پھر پہلا گھنٹہ گزرا تو بات میچ بچانے سے میچ جیتنے کے بارے میں ہونے لگی لیکن دونوں بیٹسمین نہایت پرسکون تھے۔ پھر عبداللہ شفیق نے ایک غلطی کی اور ٹیسٹ سنچری کے بہت قریب آکر محروم رہ گئے لیکن کپتان بابر اعظم کریز پر موجود تھے اور ساتھ ہی میچ بچانے کا امکان بھی۔ 
فواد عالم کی وکٹ گری تو میدان میں رضوان کی آمد ہوئی۔ اب کریز پر وہ جوڑی تھی جو پچھلے سال ٹی ٹوئنٹی میں تین بار ڈیڑھ سو سے زائد کی شراکت قائم کرچکی تھی۔ بابر اعظم کے ڈیڑھ سو رنز ہوچکے تھے لیکن ابھی پاکستان کو مزید 53 اوورز کھیلنا تھے اور فتح کے لئے 229 رنز درکار تھے لیکن فتح کا خیال شاید دور دور تک دونوں کے ذہنوں میں نہیں تھا اور ہوتا بھی کیسے کہ ایک وکٹ مزید گرتے ہی لائن لگنے کا قوی امکان تھا۔ چائے کے وقفے سے قبل دو مسلسل گیندوں پر بابر اعظم کے دو کیچ گرے‘ پھر ایک ایل بی ڈبلیو کی اپیل سے بچے تو ایسے میں جیت کی سوچ اگر تھی بھی تو ذہن سے نکل چکی تھی۔ چائے کے وقفے کے بعد دو اوورز میں بیس رنز بنے تو اس کی وجہ جیت کی کوشش کے بجائے باؤلرز کو حاوی ہونے سے روکنا تھا۔ بابر اعظم میچ پاکستان کے لئے تقریباً بچا ہی چکے تھے‘بابر اعظم ڈبل سنچری تو نہ کرسکے لیکن ایک بڑی اننگ ضرور کھیل گئے تھے کہ جس کا اعتراف ساری آسٹریلوی ٹیم کی داد تھی۔ بابر اور رضوان جیت کیلئے کیوں نہیں گئے‘ اس سوال کا جواب اگلی ہی گیند پر فہیم کی وکٹ کی صورت میں سب کے سامنے تھا۔ رضوان نے ساجد خان اور پھر نعمان علی کے ساتھ مل کر میچ کو ڈرا کروا ہی لیا‘ اسی دوران رضوان کی سنچری بھی مکمل ہوگئی مگر ذہنوں پر ابھی تک بابر اعظم کی اننگ ہی چھائی ہوئی تھی اگرچہ بابر اعظم اپنی ڈبل سنچری نہ کرسکے اور پاکستان کے لیے ایک تاریخی فتح بھی حاصل نہ کرسکے لیکن جیسی اننگ بابر اعظم نے کھیلی ہے اس سے بابر کے ٹیسٹ کیریئر میں ایک نیا رنگ ضرور بھر چکا ہے اور پاکستان کیلئے اُمید کی کرن یہ ہے کہ بابر اعظم بہترین ٹیسٹ بیٹسمین کی صورت سامنے آئے ہیں۔