او ای سی: اتحاد‘ انصاف اور ترقی 

 57 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ”آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او ای سی) کے وزرائے خارجہ کا 48واں 2 روزہ اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے جو آج (بائیس مارچ) اور کل (تئیس مارچ) ”اِتحاد‘ انصاف و ترقی کیلئے شراکت داری“ کے موضوع (تھیم) پر غور کرے گا۔ اگرچہ اسلامی ممالک کے مسائل و مشکلات بالخصوص فلسطین‘ عراق‘ چین‘ افغانستان و (بھارت کے زیرتسلط) کشمیری مسلمانوں کی اکثریت جس کرب و اذیت سے گزر رہی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے ’اسلامی ممالک‘ کے مابین شراکت کا کوئی دوسرا موضوع یا عنوان نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ایسا کوئی عنوان کارآمد ہو سکتا ہے جو مسلم اُمہ کے رستے ہوئے زخموں کیلئے مرہم ثابت نہ ہو لیکن بہرحال ’اُو آئی سی اجلاس‘ چاہے جس سطح پر بھی اور چاہے جہاں کہیں بھی ہو‘ اِس کی اہمیت و خصوصیت برقرار رہتی ہے اور ”بین الاقوامی سیاست“ میں ایسے اجلاسوں کے جاری ہونے والے اعلامیوں میں شامل ہر ایک لفظ کو نہایت ہی غور اور توجہ سے پڑھا اور سنجیدگی سے لیا جاتا ہے تاہم مسئلہ ’او آئی سی‘ کی عالمی ساکھ کا نہیں بلکہ ’او آئی سی‘ کے مقصد و افادیت کی ہے کہ ماضی میں ’او آئی سی‘ کے رکن ممالک کی ممکنہ طور پر طاقتور نمائندہ تنظیم ہونے کے باوجود بھی یہ ’وسیلہ (پلیٹ فارم)‘ مسلم ممالک کو درپیش مسائل کے حل میں زیادہ پیش رفت کرنے میں ناکام رہا ہے یا جن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ’او آئی سی‘ کی جانب سے وقتاً فوقتاً نشاندہی کی گئی ہے‘ اُنہیں عالمی طاقتوں (غیرمسلم ممالک) نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ایک مرتبہ پھر ’او آئی سی‘ اجلاس فلسطین‘ افغانستان‘ کشمیر اور دیگر مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی پائمالی سے پیدا ہونے والی صورتحال جیسے مسائل پر بات چیت کیلئے تیار ہے لیکن یہ وہ مسائل ہیں جو پہلے ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُجاگر ہیں۔ ’او آئی سی‘ کو توجہ دلانے کی نہیں بلکہ دنیا کی توجہ مرکوز کرانے کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں اور یہ واضح (بلاروک ٹوک) مؤقف بھی دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے کہ اگر مسلمان ممالک کے حوالے سے مغربی دنیا کی حکمت عملیاں اور اصول تبدیل نہ ہوئے تو ایسی صورت میں مسلمان ممالک مشترکہ طور پر دفاعی حکمت عملی مرتب کریں گے کہ اگر مغربی ممالک اور اِن کے اتحادی روس کے خلاف ’نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو)‘ بنا سکتے ہیں اور 24 مختلف زبانیں بولنے والے 27 ممالک مل کر ’یورپین یونین‘ بنا سکتے ہیں جن کی کرنسی و دفاع مشترک ہو سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ مسلمان ممالک کو ایسی ہی تنظیم و اتحاد اور مشترکات کا عملاً مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلاشک و شبہ ’او آئی سی‘ ممکنہ طور پر طاقتور و نمائندہ ادارہ ہے کہ یہ تیل (پیٹرولیم مصنوعات) سے مالا مال ممالک پر مشتمل ہے اور پیٹرولیم مصنوعات ہر ملک کی کم یا زیادہ لیکن بہرحال ضرورت و ضروری ہے لیکن اگر ’او آئی سی‘ رکن ممالک آپسی اختلافات پر حالات کو ترجیح دیں۔ ذہن نشین رہے کہ ”اسلامو فوبیا“ سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کا دن منانے کی ضرورت اس بات کی روشن مثال ہے کہ اسلام سے جڑے ایسے کتنے ہی مسائل ہیں‘ جو مسلم اُمہ کو درپیش ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ غوروفکر نہیں ہو رہا۔ او آئی سی کے حالیہ اجلاس کے ایجنڈے میں یمن کی صورتحال پر غور شامل ہے۔ ضرورت یمن میں جنگ ختم کرنے کی ہے۔ ضرورت افغان عوام کے مسائل حل کرنے کی ہے۔ ضرورت افغانستان  کے منجمد اثاثے بحال کرنے اور افغانستان کی مدد کرنے کی ہے۔ ضرورت کشمیر کی صورتحال اور اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک (انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں) پر بھارت کو مخاطب کرنے کی ہے۔ اگر ’او آئی سی‘ اجتماعی طور پر ان معاملات پر آواز نہیں اٹھاتی تو یہ اور دیگر ایسے مسائل کے حل‘ انصاف و ترقی کی شراکت داری ممکن نہیں ہوگی۔ بہرحال اُمید ہے اور اُمید پر دنیا قائم ہے کہ  او آئی سی اجلاس میں ’او آئی سی‘ کے قیام کے بنیادی مقصد کو پیش نظر رکھا جائے گا اور مسلمان ممالک آپسی اختلافات کے حل کرنے کیلئے مشترکہ حکمت ِعملی وضع کریں گے‘ تاکہ مسلمان مغلوب نہ رہیں اور اِن کا وجود اور موجودگی حسب حال محسوس کی جائے۔