انحصار کا خمیازہ

متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ممکنہ طور پر 28مارچ کو ہوگی۔اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی اپوزیشن کے ساتھ مل چکی ہیں جبکہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے 12ارکان بھی اپوزیشن کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کوکروڑوں کی پیشکشیں کی گئی ہیں تاہم وہ رائے شماری کے دن تک اپنی پارٹی میں واپس آجائیں گے، ویسے دیکھا جائے توپاکستان تحریک انصاف نوجوانوں کی جماعت ہے وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ملک کی 65فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان کی اکثریت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے لیکن 2018کے انتخابات میں عمران خان نے نوجوان تعلیم یافتہ افراد کو پارٹی ٹکٹ دینے کے بجائے الیکٹ ایبلز(Electables)پر زیادہ اعتماد کیاجو ایک طرح سے اس وقت ان کی مجبوری تھی تاہم اس سے اگر گریز کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ وزیر اعظم کا خیال تھا کہ اگر ان کی مدد سے حکومت بنائی جائے تو پھر بھی وہ اہم فیصلے کرکے تبدیلی کے سفر کو ممکن بنا دیں گے اور انہوں نے ایسا کرکے بھی دکھایا، خارجہ پالیسی میں جو انقلابی تبدیلی وزیر اعظم لائے ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہے۔
 صحت و تعلیم کے حوالے سے جو اہم اقدامات کئے گے ہیں وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور تحریک انصاف حکومت کے کارناموں میں شامل رہیں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کے حوالے سے دور رس اثرات کے حامل منصوبوں کو متعارف کرایا اس طرح توانائی کے شعبے میں بھی اہم منصوبے سامنے آئے ہیں جن میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے کئی ڈیم شامل ہیں غربت کے خاتمے اور ضرورت مندوں کی امداد کے حوالے سے بھی کئی پروگرام شروع کئے گئے اس تمام بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک طرح سے وزیر اعظم کی الیکٹ ایبلزکے سہارے حکومت بنانے کی پالیسی یکسر ناکام نہیں رہی اور چار سال انہی کی مدد سے حکومت کی۔ تاہم یہ تجربہ ہوگیا کہ آنے والے انتخابات میں اگر وہ اپنے دیرینہ کارکنوں کو ہی ایوانوں میں آنے کا موقع دیں تو یہ بہت ہی بہتر نتائج کا حامل فیصلہ ہوگا۔اس وقت 2018میں حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی نے جن لوگوں پارٹی میں شامل کیا تھا، آج وہی پھر پارٹی چھوڑنے کیلئے پر تولنے لگے ہیں۔ اس رویے کے باعث ملک میں جمہوریت مستحکم ہونے کے بجائے روزبروز کمزور ہورہی ہے اور عوام کا اعتماد بھی سیاست اور جمہوریت سے اٹھنے لگا ہے۔
عمران خان کی صورت میں قوم خصوصاً نوجوان نسل کو خدمت کی سیاست کے حوالے سے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔چار سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد عمران خان کو سیاست کے اندر موجود منفی رجحانات کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اگر انہیں سیاست کے تلخ حقائق کا ادراک ہوجائے تو یہ سیاسی تجربے کی معمولی قیمت ہوگی اور انہیں آئندہ کیلئے اپنے مخلص اور جانثار ورکرز پر اعتماد کرنا ہوگا۔ 2023کے انتخابات میں اگر پی ٹی آئی نے واقعی اپنے ورکرز کو جنہوں نے جماعت کی مقبولیت میں اہم کردار اداکیا ہے کو ایوانوں میں جانے کاموقع دیا تو وہ جیت کیلئے بھر پور محنت کریں گے اور جیت کی صورت میں پھر دنیا دیکھے گی کہ کس طرح تبدیلی کے ایجنڈے پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل ہوتا ہے اور حکومت کو اتحادیوں کے سہارے کے بغیر اپنے ایجنڈے پر عملدر آمد کرنے کا موقع ملتا ہے اور اس حکومت میں جتنے ترقیاتی منصوبے پروان چڑھے اور حکومتی ایجنڈے پر عمل درآمد ہوا مستقبل میں اس سے زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔