سرطان (کینسر) پر تحقیق کرنے والوں نے خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں رہنے والے کھو (خو) نامی قبیلے کے افراد کے ’ڈی این اے اور جنیوم میں ایسی مزاحمتی قوت (عناصر) یا خصوصیت پائی جس کی وجہ سے یہ لوگ سرطان کے خلاف پیدائشی مزاحمت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِس قبیلے کے افراد میں کینسر اُس شرح سے نہیں پایا جاتا‘ جس کا شکار عموماً دیگر قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق عبدالولی خان یونیورسٹی (مردان) کے پانچ سالہ مطالعے (تحقیق) کے بعد سامنے آئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کینسر کا علاج دوا کے ذریعے تاحال تلاش نہیں کیا جا سکا لیکن اِس بیماری کے خلاف قدرتی طور پر قوت مزاحمت رکھنے والے افراد کی تشخیص ہوئی ہے جن میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ ممکنہ طور پر کینسر کی بیماری سے لڑنے کی حیاتیاتی قوت یا صلاحیت رکھتے ہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کی اِس تحقیق کو عالمی جریدے ’یورپی جرنل آف ہیومن جینیٹکس‘ میں بھی شائع کیا گیا ہے۔ اِس تحقیق کا بنیادی مقصد (نکتہ) یہ تھا کہ چترال کے کھو (خو) قبیلے کے جینیاتی نسب کی تحقیق کی جائے اور اِس میں شعبہئ کیمیا (کیمسٹری) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر آصف اللہ خان‘ ڈاکٹر شاہد عزیز‘ حزب اللہ خان‘ کومل زیب اور کرن نگار نے حصہ لیا۔ پانچ سالہ تحقیق سے نتیجہ اخذ ہوا کہ کھو (خو) قبیلے کے لوگ اپنے جینوم اور فزیالوجی کی وجہ سے کینسر کا فطری طور پر مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن اگر اُن میں سے کچھ لوگ کینسر کا شکار ہوئے تو اِس کی وجہ دیگر عوامل تھے۔
مذکورہ تحقیق یا مطالعہ سال دوہزارسولہ میں شروع کیا گیا‘ جس میں ایک سو سولہ افراد کو شامل کیا گیا جن کی عمریں پچیس سے پینتیس سال کے درمیان تھیں۔ اِس تحقیق میں یونیورسٹی آف پاڈووا‘ اٹلی کے پروفیسر لوکا پگانی‘ فوڈان یونیورسٹی‘ شنگھائی چین کے پروفیسر شاؤ کنگ وین اور موناش یونیورسٹی‘ ملائیشیا کے پروفیسر قاسم ایوب کا تعاون (رہنمائی) بھی حاصل کی گئی۔ کھو (خو) نامی قبیلے کے بڑے گروہوں میں جینوم وائڈ ایسوسی ایشن اسٹڈیز کی سفارش کی گئی ہے یہ چترال میں رہنے والے آبادی کا بڑا گروہ ہے۔ مطالعے کے نتائج سے پتہ چلا کہ متعدد افراد کے جینز نے سرطان کے خلاف مدافعتی ردعمل کی نشوونما میں کردار ادا کیا‘ جو روگ جنک جرثوموں کے انفیکشن کے خلاف موافقت ہو سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کھو (خو) قبیلہ ہندوکش پہاڑی سلسلے کے ایک اونچے حصے پر آباد ہے جہاں ایک خاص تناسب سے ’بنفشی شعاعیں (اَلٹرا وئلٹ ریز)‘ پھیلی رہتی ہیں۔
اِس تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ شمالی اور شمال مغربی پاکستان میں رہنے والوں کی پراسرار جینیاتی خصوصیات کا مطالعہ کیا جائے اور اِس مقصد کے لئے جامعات میں مالیکیولر اینتھروپولوجی سیکشنز اور اِس سے متعلق دیگر ذیلی شعبہ جات کو ترقی دی جائے۔ چترال کے مذکورہ قبیلے کی آبادی کے مجموعی تقابلی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ کھو (خو) سے تعلق رکھنے والے اپنے آباؤ اجداد کا ایک بڑا حصہ اُن لوگوں سے ڈھونڈ سکتے ہیں‘ جو تقریباً ایک سو دس نسلیں قبل دوسری صدی قبل مسیح کے دوران جنوبی سائبیریا کے میدانوں سے ہجرت کر کے یہاں آئے اور آباد ہوئے تھے اور اِن میں وقت کے ساتھ سرطان کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی رہی۔ اگر جامعات میں کینسر کی تحقیق کے شعبہ جات قائم کئے جائیں اور اِس سلسلے میں منصوبوں کی مالی معاونت کی جائے تو پاکستان نہ صرف اپنے ہاں کینسر کے علاج میں پیشرفت کرے گا بلکہ عالمی سطح پر کینسر کے علاج معالجے کا مرکز بھی بن جائے گا اور یوں ’طبی سیاحت‘ فروغ پائے گی کہ دنیا بھر سے کینسر کے علاج کیلئے مریض اور اِس بارے میں تحقیق کرنے والے پاکستان کا رخ کریں گے۔
مغربی ممالک اپنے ہاں ایسی تحقیق پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہے اور اِس کے نتائج سے کھربوں ڈالر منافع کمایا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں بیماریاں اور اِن کے علاج منافع بخش ہیں تاہم کینسر جیسے کسی بھی پیچیدہ مرض کا علاج دریافت کرنے کیلئے جینومکس ڈیٹا کے تجزئیوں اور اِن کی تشریح پر مبنی کوائف (ڈیٹا) کی ضرورت ہے جس کی روشنی میں تجزیہ کار اور محقق آگے بڑھتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کی عقل بیماریوں کی پیچیدگی سے کئی گنا زیادہ وسیع ہے اور یہی وجہ ہے کہ علاج معالجے کے شعبے میں گرانقدر کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں تاہم اب بھی ایسے کئی ایک امراض ہیں جن کے علاج دریافت نہیں ہو سکے تاہم یہ علاج ہمارے گردوپیش میں موجود ہیں‘ جن کی کارخانہئ قدرت بالخصوص انسانی فطرت کے سربستہ رازوں میں تفکر (غور) سے تلاش ممکن ہے۔