قومی سیاسی بیانیہ کسی خلاف توقع بات یعنی ’سرپرائز‘ کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ خلاف توقع بات حزب اقتدار اور حزب اختلاف کیلئے الگ الگ حقیقت و معانی رکھتی ہے اور اِس ایک ہی اصطلاح کے مختلف مطالب بیان کرتے ہوئے دونوں قوتیں اپنے اپنے مؤقف کی کامیابی کے لئے پُراُمید ہیں جبکہ قوم کو ’سرپرائز‘ دینے کا عندیہ دیا جا رہا ہے لفظ سیاست کا لغوی معنی اختلافات ختم کرنا ہے۔توجہ طلب ہے کہ قومی سیاست میں چلتے چلتے بالآخر اُس مقام (بندگلی) تک آ پہنچی ہے جہاں سیاسی رابطوں اور ارادوں کا امتحان پارلیمان کے اندر اور پارلیمان کے باہر کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں تحریک ِانصاف حسب توقع ’فرنٹ فٹ‘ پر کھیل رہی ہے اور حزب اختلاف کی جانب سے کسی بھی وار (حملے) کو ناکام بنانے کے سلسلے میں ’سرپرائز‘ رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن صرف ’سرپرائز‘ ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف نے ’27 مارچ‘ کے روز اپنی عوامی حمایت کا مظاہرہ کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے اور یہ اعلان خود وزیراعظم پاکستان نے قوم سے اپنے مختصر ترین خطاب (24 مارچ) میں کرتے ہوئے جو نکات بیان کئے گئے اُن کے مطابق ”1: عوامی نمائندوں کی منڈی لگائی گئی ہے۔ 2: اراکین پارلیمنٹ کی ’وفاداریاں اور ضمیر‘ خریدے گئے ہیں۔ 3: حکومتی جماعت اور حزب اختلاف کے درمیان تنازعہ درحقیقت نیکی و بدی (خیروشر) کی قوتوں کے درمیان جنگ ہے جس میں قوم کو متحد ہو کر تحریک انصاف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے اور یہ پیغام دینا چاہئے کہ عوام ’بدی یعنی حزب اختلاف کی سیاست سے بیزار و مخالف ہیں۔ 4: عوام کو ’ہارس ٹریڈنگ‘ (کسی بھی صورت) قابل قبول نہیں۔چوبیس مارچ کا دن نصف ڈھلنے تک وزیراعظم کے قوم پیغام سمیت 2 یکساں اہم پریس کانفرنسیں ہوئیں۔
پہلی پریس کانفرنس نیشنل (اسلام آباد) پریس کلب میں تحریک انصاف کے خلاف ’فارن فنڈنگ کیس‘ کرنے والے ’اکبر ایس بابر‘ کی تھی جنہوں نے اپنے قانونی مشیروں کے ہمراہ ایک گھنٹے تک ایک ہی بات دہرائی کہ ”اگر سال 2018ء میں تحریک انصاف کو ملنے والی غیرملکی مالی امداد و عطیات (فارن فنڈنگ) کے مقدمے کا فیصلہ (اِن کی خواہش کے مطابق) سنا دیا جاتا تو اُن کے بقول ملک جس سیاسی عدم استحکام سے گزر رہا ہے اِس کی نوبت نہ آتی۔“وزیراعظم کے پیغام سے قبل شروع اور اُن کے پیغام کے بعد ختم ہونے والی 35 منٹ دورانئے کی دوسری پریس کانفرنس وزیر داخلہ شیخ رشید کی تھی جنہوں نے چار باتیں بار بار اور زور دے کر کہیں۔ 1: بہتری اِسی میں ہے کہ عمران خان کو بطور وزیراعظم آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔ 2: (حزب اختلاف خاطر جمع رکھے کیونکہ) ملک میں قبل ازوقت عام انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ 3: وفاقی حکومت ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر سکتی ہے۔ 4: حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی حکومت سے رابطے میں ہیں اور جس طرح حکومتی جماعت کے اراکین نے وفاداریاں تبدیل کی ہیں‘ اِسی طرح حزب ِمخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے بھی ’ملک و قوم کے وسیع تر مفاد‘ میں حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ خطے اور ملک کے داخلی حالات میں یہی بہتر و مناسب ہے کہ موجودہ حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔
شیخ رشید سے زیادہ سیاسی بیان بازی کا ماہر شاید ہی کوئی دوسرا ہو‘ جنہیں اپنی بات جامع ترین انداز میں بیان کرنے کا ہنر آتا ہے۔ اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں شیخ رشید نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے ادارے کے خلاف ہتک آمیز باتیں لکھنے (شیئر) کرنے والوں کے خلاف کاروائی کے فیصلے کا بھی اعلان کیا جو اپنی جگہ ’سرپرائز‘ ہے کیونکہ پاک فوج کو سیاست میں گھسیٹنے اور عدلیہ سمیت اِس اہم ترین قومی ادارے کو مشکوک بنانے میں پیش پیش سیاسی جماعتیں ہیں‘ جن کے قائدین کے بیانات کو کارکن بنا سوچے سمجھے پھیلاتے ہیں یا ایک ایسے موضوع کے بارے میں سیاسی نظریات کی عینک لگا کر اظہار ِخیال کرتے ہیں‘ جن کے منجملہ حقائق اُن کے سامنے نہیں ہوتے۔ ’سرپرائز‘ کی سیاست و حکمرانی کرنے والوں کو اپنے قول و فعل پر غور کرنا چاہئے کہ کس طرح ایک عام آدمی اِس پوری صورتحال سے حیران و پریشان ہے اور مہنگائی کے سبب متاثر ہے لیکن کوئی بھی ایسا ’سرپرائز‘ موجود نہیں جس سے مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں کمی آئے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک خاص طبقے کیلئے سیاست و حکمرانی بھی لطف اندوزی ہی کے وسیلے ہوں؟ ”کچھ لوگ تو خلاف ہوں‘ حاسد کوئی تو ہو …… کیا لطف سیدھی سادی محبت میں آئے گا (فاضل جعفری)۔“