مہاجرین کاالمیہ 



چند روز قبل کی بات ہے بازار میں ایک اجنبی نے روک کر یونیورسٹی ٹاؤن کا پتہ پوچھا لہجہ سے غیرمقامی باشندہ لگ رہاتھا پتہ سمجھانے کے بعد استفار پر اس نے بتایاکہ اس کاتعلق کابل  ہے اور وہ کل ہی یہاں پہنچاہے کیونکہ اس کے بقول وہاں روزگاراور محنت مزدوری کے مواقع ختم ہوتے جارہے ہیں اسی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ایک بارپھر پاکستان کارخ کرنے پر مجبور ہے۔اس نوجوان کی یہ بات ہم دونوں کے لئے باعث تشویش تھی کہ وہ تو بے گھرہورہے ہیں اور ہم پر ایک بارپھردباؤ بڑھنے کا خدشہ منڈلانے کالگاہے یقینا ہجرت دنیا کے بڑے المیوں میں سے ایک شمار ہوتاہے اپنے آبائی وطن کو حالات کے ڈر سے چھوڑنا بہت ہی مشکل کام ہوتاہے نئے ماحول میں خود کو ڈھالنااس سے بھی مشکل مرحلہ ہواکرتاہے اور مہاجرین کو یہ دونوں کٹھن مراحل بہر طور طے کرناہوتے ہیں ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت اسی ملین یا آٹھ کروڑ کے قریب انسان مہاجر ہیں۔ گزشتہ دہائی میں عالمی سیاسی عمل میں ناکامی نے مہاجرین کی تعداد بڑھا کر دوگنا کر دی ہے۔دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصد یا تقریباً اسی ملین افراد مسلح تنازعات، جنگی حالات، قحط اور نامناسب صورت حال یا انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے بچنے کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مہاجرت پر مجبور انسانوں کی اس بہت بڑی تعداد کا نصف بچوں پر مشتمل ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق تاریخ میں مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے اور یہ بات واضح کرتی ہے کہ عالمی سطح پر بین الاقوامی سیاسی عمل کس حد تک ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے یہ ایک پریشان کن صورت حال بھی ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے اور یہی ہتھیار مسلح تنازعات میں شدت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے بھی معمول کی زندگی کو متاثر کر رکھا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کے علاوہ کورونا وائرس کی وبا ء نے بھی انسانوں میں مہاجرت کے رجحان کو تقویت دی ہے۔ ان مسائل نے مزید کئی ملین انسانوں کی محفوظ مقامات کی جانب منتقلی کا خطرہ بھی کھڑا کر دیا ہے۔مسلح تنازعات کے شکار ممالک کو بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا ہے اور اس باعث بھی مقامی آبادیاں نامساعد حالات سے دوچار ہیں۔ مہاجرین سے متعلق عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ شام اور وینزویلا سے لوگوں کے فرار ہونے کی ایک بڑی وجہ ان ممالک پر عائد کردہ شدید نوعیت کی بین الاقوامی معاشی پابندیاں ہیں۔ جنگی حالات اور پابندیوں کے باعث شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ترکی میں مقیم ہے جبکہ سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک وینزویلا سے ترک وطن کرنے والے شہری کولمبیا میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔اسی طرح گذشتہ سال ماہ اگست میں افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے اچانک انخلا ء کے بعد ایسے ہزاروں افغانوں کی تصاویر نے عالمی سطح پر تہلکہ مچا دیا جو ہر صورت اپنے ملک سے نکل جانا چاہتے ہیں بائیس اگست 2021ء تک چھ ہزار امریکی فوجی دستے اپنے شہریوں اور ان افغانوں کو ملک سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں خصوصی تارکین وطن ویزا فراہم کیا گیا۔خصوصی تارکین وطن ویزوں کا اجرا ء ان افغان شہریوں کے لئے کیا گیا جنہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر امریکی فوجی دستوں کے لئے کام کیا۔امریکہ میں گذشتہ 40 سال کے دوران دنیا بھر سے آنے والے مہاجرین کو پناہ دینے کی شرح غیر معمولی حد تک گراوٹ کا شکار ہو کر 2019 ء میں 50 ہزار سے بھی کم ہو گئی جبکہ 1980 ء میں یہ تعداد دو لاکھ تھی گذشتہ 20 برس کے دوران امریکہ نے 20 ہزار افغان تارکین وطن کو پناہ دی جو سالانہ اعتبار سے اندازاً ایک ہزار کی اوسط بنتی ہے۔لیکن 2020-2021 کے مالی سالی کے دوران دنیا بھر سے محض 11 ہزار 800 افراد امریکہ میں آباد ہو سکے جن میں خصوصی تارکین وطن ویزا حاصل کرنے والے فقط 495 افغان ہیں۔یورپ بہت کم افغان مہاجرین کو جگہ دیتا ہے دہائیوں سے افغان شہری قانونی یا غیر قانونی طریقے سے یورپ میں بھی پہنچے۔ اس براعظم میں 2015-2016 کے دوران پہنچنے والے افغانوں کی تعداد تین لاکھ ہے۔پاکستان نے طویل مدت تک افغان مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد کو پناہ دی حالانکہ وہ مہاجرین کنوینشن 1951 یا مہاجرین سے متعلق عالمی قانون پروٹوکول 1967 میں سے کسی ایک کا بھی رکن نہیں۔سوویت یونین کے 1979 میں حملے کے دو سالوں کے اندر مجاہدین کی طاقت میں اضافے کے ساتھ جیسے ہی جنگ میں شدت پیدا ہوئی 15 لاکھ افغان ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ 1986 ء تک تقریباً 50 لاکھ افغان پاکستان یا ایران پہنچ چکے تھے۔اقوامِ متحدہ کے 1951 ء کے مہاجرین کنونشن کے مطابق ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر محفوظ ہونے پر پناہ طلب کر سکے۔ایسے ممالک جو مہاجرین کو قبول نہیں کر رہے وہ اپنے مسائل مثلاََ معاشی، آبادیاتی شماریات میں تبدیلی، سکیورٹی اور سیاسی مسائل کو بطور وجہ پیش کرتے ہیں عالمی قانون میں مہاجر کی تعریف اور ان کے لئے ریاستوں کی ذمہ داری کی نوعیت تسلسل کے ساتھ واضح کی گئی ہے لیکن پھر بھی ان کے متعلق سمجھ بوجھ میں کمی پائی جاتی ہے۔ مہاجرین کے متعلق موجودہ حکمت عملی دوسری جنگِ عظیم کے بعد مرتب کی گئی تھی جب دسیوں ملین افراد بے گھر ہوئے تھے۔ مہاجرین سے متعلق اقوامِ متحدہ کا مرکزی ردِ عمل 1951ء کا کنونشن تھا۔ مہاجر اس فرد کو کہتے ہیں جو اپنے آبائی ملک سے باہر ہو اور بہت مخصوص وجوہات کی بنا ء پر اپنی جان کو خطرے کے پیشِ نظر واپس نہ جا سکے۔ یہ تعریف عام مشہور تعریف کی نسبت محدود ہے۔ اوّلاََ اس میں وہ لوگ شامل نہیں جو اپنے ہی ملک کے اندر ہجرت کرتے ہیں۔ دوئم یہ ماضی کے تجربات کو چھوڑ کر مستقبل کی تکالیف کے خوف پر مبنی ہے۔ سوئم اس میں جان کے خطرے اور اس سے متعلق کنونشن میں دی گئی وجوہات کے درمیان ایک ربط کی ضرورت ہے اور اس میں وہ لوگ شامل نہیں جو قدرتی آفات کی وجہ سے یا خالصتاََ معاشی مسائل کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑتے ہیں۔ مہاجر کا درجہ کسی بیرونی سرکار کی جانب سے نہیں دیا جاتا بلکہ یہ فرد میں ذاتی طور موجود ہے۔ مزید برآں مختلف گروہوں کے درمیان تفریق نہیں ہونی چاہئے۔ اقوامِ متحدہ کے ممبر 193ممالک میں سے 145 نے مہاجرین کنونشن کو باضاطہ اپنایا ہے۔ جن ریاستوں نے اسے نہیں اپنایا وہ قانونی طور پر اس کی پابند نہیں سوائے اخلاقی ذمہ داری کے،کچھ عرصہ قبل پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک تھا اور اب ترکی سب سے بڑا ایسا ملک بن گیا ہے  پاکستان کے مہاجرین کے کنونشن کا حصہ نہیں ہے چنانچہ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ میں اس کا چار ملین اس عرصہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد جو کہ 2005ء میں 2.6  ملین اور اب 1.6 ملین ہے افغان مہاجرین کو پناہ دینا ایک غیر معمولی عمل ہے موجود ہ حالات میں کہ جب ایک طر ف عالمی برادری نے افغانستان کو تنہا چھوڑاہواہے اوردوسری طرف روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے یورپ میں حالات کشیدگی کی طرف گامزن ہیں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ جاری ہے یوکرائن سے اب تک پندرہ لاکھ (بعض رپورٹوں کے مطابق بیس لاکھ)سے زائد افرادنقل مکانی کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے افغانستان بھی بدستور لوگ پاکستان کی طرف آرہے ہیں کیا عالمی برادری مستقبل میں ہجرت کے اس سلسلہ کو روکنے کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کرسکتی ہے یہ اس وقت کا سب سے اہم سوال ہے جس کے جواب میں مستقبل کے المیوں سے بچاؤ کی راہیں پوشید ہ ہیں کاش کہ کسی کو بھی اپنا وطن بے سروسامانی کے عالم میں چھوڑنے پر مجبو رنہ ہونا پڑے۔