جرم کہانی: خواتین‘ تحفظ و عدم تحفظ

پاکستان میں خواتین بالخصوص لڑکیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی شرح میں کمی نہیں آ رہی،ذہن نشین رہے کہ یہاں جس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کی بات ہو رہی ہے اُن کا تعلق عام خواتین سے ہے۔ توجہ طلب ہے کہ اقلیتی خواتین کے خلاف جرائم کی طویل فہرست میں تازہ ترین ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ سالہ لڑکی پوجا کماری کا قتل ہے‘ جسے سکھر (سندھ) سے اغوا ء کرنے کی کوشش کی گئی اور جب اُس نے اغوا ء کی یہ کوشش ناکام بنائی اور شدید مزاحمت کی تو حملہ آوروں نے اُسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن وہ اِس رشتے سے انکاری تھی۔ اِس ”جرم کہانی‘‘کی تفصیلات کے مطابق تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ قتل کی اِس واردات میں قاتل کے دو ساتھیوں نے معاونت بھی کی اور وہ مقتولہ کے گھر میں داخل ہوئے جہاں تکرار اور تشدد کے بعد لڑکی کو گولی مار کر قتل کیا گیا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے مقامی عدالت میں پیش کر دیا ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران اندرون سندھ کے مختلف علاقوں سے اِس قسم کے جرائم جن میں کم عمر لڑکیوں کے اغواء کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔یہ کمزور طبقات کے خلاف ”استحصالی نظام“ کو فروغ دیتا ہے۔ اس طرح کی تفریق اور نفرت سے معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔ سماج میں خلا سے بدگمانیاں اور نفرتوں کو جگہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے اور پھر یہ نفرتیں ملک کے اُن حصوں میں بھی پھیل جاتی ہیں‘ جہاں اِن کی تخلیق یا پرورش نہیں ہوئی ہوتی لیکن ایسے جرائم کو معاشرہ قبول کر لیتا ہے۔ کسی بھی چیز سے بڑھ کر پریشان کن بات یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں کمزور طبقات (خواتین و اقلیتوں اور خواجہ سراؤں) کے حق میں نہیں۔ اِس طرح کے جرائم میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے بارے میں دنیا کی توجہ مبذول کروا رہا ہے جو خوش آئند امر ہے  اس لئے  فیصلے کی گھڑی ہے کہ قومی فیصلہ ساز اِس بارے میں سر جوڑ کر بیٹھیں کہ کس طرح پاکستان میں خواتین و اقلیتوں کو تحفظ و حقوق فراہم کئے جائیں‘۔ خواتین و اقلیتوں کے ساتھ عزت و تکریم سے پیش آنا‘ اِنہیں بغیر کسی خوف کے اپنے عقائد پر عمل کرنا‘ یا جبراً شادی نہ کرنا اور عبادت گاہوں کا تحفظ چند ایسے بنیادی حقوق ہیں جو کسی بھی ملک میں اقلیتی برادری کو غیرمشروط طور پر حاصل ہونے چاہئیں۔ بنیادی طور پر‘ ریاست کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ مذہبی اقلیتوں اور خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں مساوی حقوق حاصل ہوں۔ سپریم کورٹ کے سال دوہزارچودہ کے تاریخی فیصلے میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے مخصوص سفارشات کی گئی ہیں۔مذکورہ فیصلے میں حکومت سے جن چند اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ان میں اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے الگ سکیورٹی فورس تشکیل دینا اور اِس فورس کی خصوصی تربیت کے علاؤہ نصابی کتب سے نفرت انگیز مواد کے اخراج اور نصاب ِتعلیم سے نفرت کی بجائے رواداری و جامعیت جیسے درس شامل ہیں۔بنیادی نکتہ یہ ہے اور حزب اقتدار و حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین کو سمجھنا ہوگا کہ صرف قانون سازی کافی نہیں ہوتی بلکہ قوانین کے احترام اور جرائم کی روک تھام کے لئے بھی الگ سے کوششیں کرنا پڑتی ہیں تاکہ معاشرے سے عدم برداشت جیسے جذبات و خیالات اور نظریات کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ مل سکے کیونکہ ایسی صورت میں داخلی استحکام و خوشحالی کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا اور ایسے سماج دشمنوں کے خلاف جاری جنگ بھی جیتی نہیں جا سکتی۔ دین اسلام کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ خواتین کے حوالے سے ہماری سوچ، خیالات، احساسات اور طرز زندگی میں نمایاں بہتری لائی جائے اور معاشرے میں خواتین کا مقام بلند سے بلند تر کیا جائے۔ دریں اثناء گزشتہ روز حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست میں خواتین کو پہلی باروراثت میں حق ملا، یورپی ممالک کو خواتین کو یہ حقوق فراہم کرنے میں کئی برس لگ گئے۔انہوں نے کہا کہ آج افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد خواتین کو وراثت میں حق نہیں دیا جارہا تھا اس لئے ہمیں اس کے لئے خصوصی بل پاس کروانے پڑے جس کی وجہ سے خواتین کی محرومیوں کا ازالہ ہو گیا ہے آئندہ بھی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے جس نے تمام طبقوں کو اپنے حقوق دیئے ہیں جب آگاہی پھیلے گی تو معاشرے میں پھیلی برائیوں کا قلع قمع ہوگا اور انصاف کا دور دورہ ہوگا اور محرومیوں کا بھی ازالہ ہوگا۔