آثار قدیمہ: دراز سلسلے

خیبرپختونخوا میں ’آثار قدیمہ‘ کے خزانے یہاں وہاں کچھ اِس طرح پھیلے ہوئے ہیں کہ کسی ایک مقام کی حادثاتی یا علمی تحقیق و جستجو سے دریافت کے بعد مزید آثار ملنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں آثار قدیمہ کے سلسلے اِس قدر دراز ہوں۔ رواں ہفتے ماہرین آثار قدیمہ نے سوات کے علاقے ’بریکوٹ‘ میں کی گئی کھدائیوں کے حالیہ سلسلے میں ’بزیرہ (Bazira)‘ نامی شہر کا دروازہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ مذکورہ شہر کے آثار پہلے ہی دریافت ہو چکے ہیں جن کی روشنی میں کی جانے والی کھدائیوں سے اِس شہر کے مزید آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ اگرچہ ماہرین آثار قدیمہ اِس حالیہ دریافت کو ’بزیرہ‘ شہر کا ثانوی دروازہ قرار دے رہے ہیں لیکن یہ ثانوی دروازہ بھی نہایت ہی اہم دریافت ہے کیونکہ اِس کے ساتھ چند منفرد نوادرات بھی دریافت ہوئی ہیں‘ جو اِس سے قبل یا تو معلوم نہیں تھیں یا پھر اُن کی حالت اتنی اچھی نہیں تھی۔ حالیہ کھدائی میں عالمی ماہرین آثار نے بھی حصہ لیا جس سے اُمید پیدا ہوئی ہے کہ آثار قدیمہ کو دیکھنے اور آثار قدیمہ کے علوم میں دلچسپی رکھنے والے خیبرپختونخوا کے ضلع سوات و دیگر ملحقہ علاقوں کا دورہ کریں گے جو گندھارا تہذہب کا مرکز بھی رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں اطالوی آثار قدیمہ کے مشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلیسا لوری کی قیادت میں ایک ٹیم 1984ء سے کھدائی کر رہی ہے اور حالیہ دریافت (بزیرہ شہر کا ثانوی دروازہ) اب تک کی سب سے اہم پیشرفت قرار دی جا رہی ہے۔ 
تصور کیا جا سکتا ہے کہ آثار قدیمہ کی کھدائی کس قدر مشکل اور باریک بینی (توجہ) سے کرنے والا کام ہوتا ہے کہ اِس میں اگر صبروتحمل اور لگن (دلچسپی) کا خاطرخواہ مظاہرہ نہ کیا جائے تو ’مشن ایکمپلش‘ نہیں ہو سکتا۔ بزیرہ پاکستان کے اہم ترین آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک ہے اور نئی دریافت نے اِس کی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس شہر پر سکندر اعظم  نے قبضہ کیا تھا جس کا گزر (موجودہ سوات کے علاقے سے) 327ء قبل مسیح برصغیر پر حملے کے دوران یہاں سے ہوا تھا۔ ’بزیرہ‘ نامی شہر کے آثار قدیمہ ’مینگورہ‘ سے تقریباً بیس کلومیٹر دور تحصیل بریکوٹ میں واقع ہیں اور عالمی ماہرین (غیرملکی فنڈنگ سے) بریزہ میں کھدائی کے سلسلے کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں‘ جن کے بقول صوبائی محکمہ آثار قدیمہ کی مدد سے کی گئی حالیہ کھدائی کے دوران جو اہم دریافتیں ہوئی ہیں‘ اُن سے صرف برصغیر پاک و ہند ہی نہیں بلکہ عالمی آثار قدیمی کے علوم میں بھی گرانقدر اضافہ ہوا ہے۔ اب تک کی کھدائیوں سے بزیرہ شہر کی دیوار کے جنوب مغربی حصے میں ثانوی دروازہ دریافت ہوا ہے جو شاید اُس وقت کے رہائشیوں کو شہر کے جنوب مغربی محلے یا حصے کی مرکزی سڑک تک رسائی فراہم کرتا تھا۔ یہ ایک وسیع اور باسہولت تعمیرات کا نمونہ ہے جس میں فن تعمیر کے کئی ایسے اصول بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو آج کی دنیا میں انتہائی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اُس زمانے میں بنا ٹیکنالوجی اِس قدر نفیس اور پائیدار تعمیرات کی گئیں ہیں۔ 
ماہرین کے مطابق اب تک ہوئی دریافت سے انڈو یونانی سے لے کر کشانو ساسانی ادوار تک آباد رہے باریکوٹ شہر کی تاریخ اور یہاں کا رہن سہن بڑی حد تک واضح ہو چکا ہے جو یقینا انسانی تاریخ میں نئے باب اور علم میں اضافے کا مؤجب ہے۔ حالیہ کھدائی سے مختلف اقسام کی نوادرات پر مبنی مواد ملا ہے‘ جس میں سکے‘ مٹی کے برتن‘ خروستی تحریریں‘ خواتین کے زیراستعمال رہے زیورات اور عمومی پہناوے جیسا کہ چوڑیاں اور ہار کہ جن میں موتیوں کی مالائیں بھی شامل ہیں۔ ٹیراکوٹا کے مجسمے اور مہاتما بدھ کی حیات اور بدھ مت کی عبادات وغیرہ سے متعلق کئی دستاویزی ثبوت ہیں‘ جو اپنی ساخت میں نایاب و دلچسپ ہیں اور اِنہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی مردہ آثار قدیمہ کے نمونے نہیں بلکہ زندہ اور جیتے جاگتے نوادرات ہیں جو اپنے دیکھنے والے سے باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اُسے ایک ایسی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں جو ہزاروں سال پہلے اِس خطے میں آباد تھی اور جس نے دنیا کو بدھ مت کے علاؤہ تہذیب و ترقی سے بھی روشناس کرایا۔ قابل ذکر ہے کہ اب تک کی سب سے عجیب و غریب دریافت میں سے ایک بڑے سائز کے دائیں سرپلنگ رسمی شنخ خول (جو تقریبا پندرہ سینٹی میٹر لمبا) ہے اور یہ عبادت گاہ میں استعمال کیا جاتا تھا جو ’بدھ مندر‘ کی کھدائی کے دوران ملا ہے۔ قدیم تحریروں اور مجسموں کو دیکھنے‘ اُن کے مطالعے اور اُن پر تحقیق سے اخذ ہوا ہے بدھ مت کے ابتدائی دور میں اِس نئے مذہب کے ساتھ ’ہندو مت‘ کی رسومات بھی چل رہی تھیں اور ایسی کئی اشیا ملی ہیں یا وہ تصاویر میں دیکھی جا سکتی ہیں کہ جو بدھ مت سے پہلے ہندو مت میں رائج رہیں جیسا کہ تیز آواز نکالنے کا ایک آلہ جسے مذہبی و دیگر تقاریب میں روایتی طور پر تیز آواز پھونکنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ یقینا بہت سے آثار قدیمہ جو بزیرہ شہر سے ملے ہیں وہ یہاں تک طویل سفر کرنے کے بعد پہنچے ہیں اور یہ بات بھی آثار قدیمہ کے علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خاص اہمیت کی حامل ہے۔
 بزیرہ شہر کے ثانوی دروازے کی دریافت سے فن تعمیر اور تاریخ دونوں ہی پہلے سے زیادہ واضح ہوئے ہیں‘ جس سے مستقبل میں نئی کھدائیوں اور بالخصوص بدھ مت پر تحقیق اور اِس کی پیروی کرنے والوں کیلئے بہت ہی خاص و اہم خبر ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سوات میں آثار قدیمہ کی کھدائیوں کے دوران‘ سب سے قدیم ’اپسائیڈل بدھ مندر‘ دریافت ہو چکا ہے جبکہ یہ دریافت کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی و غیرملکی ماہرین آثار قدیمہ اپنی کامیابیوں پر خوش بھی ہیں اور پُرجوش و پُراُمید بھی کہ اگر مزید ایسی کھدائیاں کی گئیں اور کھدائی کے عمل کو وسعت دی گئی تو کچھ نئی (زیادہ حیران کن اور منفرد) دریافتیں ممکن ہیں کیونکہ اب تک بزیرہ شہر کا مکمل احاطہ تلاش نہیں کیا جا سکا ہے اور اِس کے کچھ ہی حصے منظرعام پر آئے ہیں چونکہ آئندہ چند روز میں رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے اِس لئے بزیرہ شہر کی مکمل دریافت کیلئے مزید کھدائی رمضان المبارک کی تکمیل اور عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد جاری رکھی جائیں گی اور اِس مرتبہ چونکہ خلائی سیارے سے حاصل کردہ تصاویر اور زمین کی طے میں چھپے آثار کی ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکنہ دریافت (کھوج) بھی حکمت عملی کا حصہ ہے اِس لئے اُمید ہے کہ بہت جلد بزیرہ شہر کا مکمل خاکہ و نقشہ ہمارے سامنے ہوگا اور وہ شہر جس پر وقت نے منوں مٹی ڈال تھی اُسے ذرہ ذرہ ہٹایا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس اِسی کوشش کے نتیجے میں ڈھائی سو سال قبل مسیح کا ایک مندر تلاش کیا گیا تھا جس کے بارے میں ماہرین کا اتفاق تھا کہ یہ ’موریہ (Maurya) شاہی دور‘ میں ’اشوکا (Ashoka)‘نامی بادشاہ کے دور حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اشوکا جسے ’اشوک ِاعظم‘ بھی کہا جاتا ہے سلطنت موریہ کا تیسرا شہنشاہ تھا‘ جس کی سلطنت جنوبی بہار میں قائم تھی اور اُس نے ریاستی وسائل کا بڑا حصہ بدھ مت کی ترویج و اشاعت کے وقف کر رکھا تھا تاہم بدھ مت کی تعلیمات کے برعکس ’پراسرار‘ اشوک اعظم اپنے عہد کا طاقتور اور ایک نہایت ہی سنگدل راجہ بھی تھا اور اِس نے ایک کے علاوہ اپنے دیگر سبھی 99 بھائیوں کو قتل کروایا تھا۔ ’اشوکا‘ ہی کے دور میں بدھ مت ایشیائی خطے بشمول موجودہ خیبرپختونخوا (پاکستان کے بالائی) علاقوں میں پہنچا اور اُس کی یادگاریں پشاور سے چترال و سوات تک پھیلی ہوئی ہیں۔