افغان سپورٹ پروگرام

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد عالمی برادری نے افغان عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ نے اپنے بینکوں میں پڑے افغان قوم کے نو ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیئے ہیں ان میں سے آدھے اثاثے نائن الیون کے متاثرین کو دینے کے بہانے ہڑپ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان میں انسانی المیہ رونما ہونے کا خدشہ بدستور موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کی جانب سے افغانستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کیلئے فنڈز جمع کرنے کی اپیل کا بھی عالمی برادری کی طرف سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیاگیا۔ پاکستان کی کوششوں سے اسلامی تعاون تنظیم کی وزارتی کونسل کے اجلاس میں افغان ٹرسٹ فنڈ قائم کیاگیا ہے اور 58 اسلامی ممالک سے اس فنڈ میں حتی المقدور رقم ڈالنے کی اپیل کی گئی ہے تاکہ لاکھوں افغانوں کو بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچایا جا سکے۔اب تک صرف پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے افغانوں کی مدد کی جا رہی ہے جس کی بدولت سردیوں کے موسم میں وہاں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کا خدشہ ٹل گیا ہے۔ حکومت پاکستان کے علاوہ نجی سطح پر بھی افغانوں کی دامے درمے مدد کی جارہی ہے۔ اس میں سب سے بڑا کردار پاک افغان فورم کا ہے جس نے اپنی استعداد سے بڑھ کر افغان عوام کی مدد کی۔
 اخوت تنظیم کے زیر انتظام بھی سینکڑوں ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان افغانستان پہنچایاگیا جن میں لحاف‘ کمبل‘ گرم ملبوسات، ادویات اور اشیائے خوردونوش شامل تھیں۔ افغان عوام کو صرف بھوک مٹانے اور قحط سے بچنے کا مسئلہ ہی درپیش نہیں۔ انہیں تعلیم اور صحت کی سہولیات اور روزگارکی بھی ضرورت ہے تمام بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں  اپنے دفاتر بند کرچکی ہیں اور ان سے منسلک لاکھوں افغان بے روزگار ہیں۔خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی گذشتہ چھ مہینوں سے بند ہیں۔مہنگائی، بے روزگاری، قحط اور عالمی سطح پر تنہائی کی وجہ سے افغان عوام ڈپریشن کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہاں ذہنی امراض میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ذہنی بیماریوں سے افغانوں کو بچانے پر کسی حکومت اور ادارے نے توجہ نہیں دی۔ اس موقع پر پشاور میں قائم ذہنی امراض کے علاج پر کام کرنے والے ادارے ہورائزن نے اپنی خدمات پیش کیں۔ادارے کے سربراہ اور ذہنی امراض کے نامور معالج پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی نے بتایا کہ ہورائزن نے گذشتہ سال اکتوبر سے افغان عوام کو ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں سے بچانے کیلئے افغان سپورٹ پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت ہفتے میں دو مرتبہ ہرمنگل اور جمعرات کو آن لائن میڈیکل کیمپ لگایاجاتا ہے۔
 گزشتہ پانچ مہینوں کے اندر 583ذہنی مریضوں کا علاج کیاجاچکا ہے۔ کیمپ میں پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی‘ ڈاکٹر علی احسان مفتی اور فیمل سائیکاٹرسٹ مریضوں کا آن لائن معائنہ اور ادویات تجویز کرتے ہیں ان کی مینٹل تھراپی کی جاتی ہے فی الوقت کابل اور خوست میں آن لائن کیمپ کے ذریعے ذہنی مریضوں کا معائنہ اور علاج کیاجارہا ہے امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد دیگر علاقوں میں بھی یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔ ڈاکٹر خالد مفتی نے بتایا کہ افغانستان میں ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ وہ ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ہیلتھ خوست کی وساطت سے مریضوں کو ادویات بھیج رہے ہیں وہاں غربت کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں وہ ذہنی بیماریوں کی ادویات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہورائزن کی طرف سے ذہنی مریضوں کو ہرممکن طور پرمفت ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔ڈاکٹر مفتی نے بتایا کہ انتہائی نامساعد حالات کی وجہ سے افغانستان کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں مدد فراہم کرنا حکومت کیلئے ممکن نہیں تاہم ہورائزن، اخوت اور پاک افغان فورم جیسے اداروں کو حکومت افغان ٹرسٹ فنڈ سے وسائل اور افرادی قوت فراہم کرے تو افغانستان میں انسانی المیے کو فوری اور بہتر انداز میں روکاجاسکتا ہے۔