پشاور کہانی: زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے

 

پشاور کے اندرونی و بیرونی علاقوں سے ’نکاسیئ آب‘ کا بندوبست 100 سال سے بھی زیادہ پرانا ہے یعنی ایک ایسا نظام جو صدی قبل مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا تھا‘ اپنی تعمیراتی ساخت میں اِس لحاظ سے بھی ایک شاہکار ہے کہ خاطرخواہ دیکھ بھال‘ تعمیرومر

اور وقت کے ساتھ توسیع نہ ہونے کے باوجود بھی ’شاہی کٹھہ‘ کہلانے والا نکاسیئ آب کا بندوبست کسی نہ کسی شکل میں فعال ہے تاہم اگر اِس کی حسب ضرورت یا وقتاً فوقتاً صفائی نہ کی جائے تو وقت کے ساتھ‘ اِس کی راہداریوں اور تہہ میں کوڑا کرکٹ بالخصوص شاپنگ بیگ‘ پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیا‘ ریت‘ بجری اور مٹی جمع ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے پانی کے بہاؤ کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں صوبائی حکومت نے شاہی کٹھے کے ایک حصے جو کہ شاہی باغ سے متصل ہے پر قائم200 غیرقانونی دکانیں (تجاوزات) ختم کرنے کیلئے متعلقہ افراد کو نوٹسیز جاری کئے ہیں۔

24 مارچ 2022ء کے روز صوبائی وزیر صحت تیمور خان جھگڑا اور اعلیٰ تعلیم کے صوبائی وزیر کامران بنگش نے ”پشاور کے قدیمی (اندرونی) حصوں میں رہنے والوں کیلئے فراہم کردہ سہولیات سے متعلق غیرمعمولی اجلاس میں شرکت کی‘ جس میں متعلقہ حکومتی محکموں کے اعلیٰ حکام کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس میں کئی فیصلے ہوئے جیسا کہ 1: کوہاٹی گیٹ ہسپتال کو آئندہ چھ ماہ کے اندر 100 بستروں پر مشتمل سہولت میں تبدیل کیا جائے گا۔ 2: ’نشتر آباد ہسپتال‘ جو صرف کورونا سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کیلئے کیا گیا مختص تھا اِس سہولت سے دیگر مریض بھی استفادہ کر سکیں گے بالخصوص چھاتی کے سرطان کی تشخیص کیلئے نشتر آباد ہسپتال کو ’اندرون شہر کا خصوصی مرکز‘ بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔

3: صفت غیور ہسپتال کی ازسرنو تزئین و آرائش اور علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے کی ذمہ داری ہسپتال انتظامیہ کو سونپ دی گئی ہے اور 4: اندرون شہر پینے کے پانی کی فراہمی اور نکاسیئ آب کے نظام کیلئے مجموعی طور پر 6 کروڑ روپے مختص کئے گئے‘ جن میں سے ساڑھے تین کروڑ روپے پینے کے پانی کی فراہمی (ترسیلی نظام کی بہتری و توسیع) پر خرچ کئے جائیں گے۔

باجود سرتوڑ کوششوں کے مسئلے پھر بھی موجود کیوں رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جہاں کہیں جیسا تیسا بندوبست موجود ہے اور اِس کام کیلئے افرادی و تکنیکی وسائل بھی مختص ہیں اور کوڑا کرکٹ شہر کے جن حصوں سے اکٹھا کر کے اُس کا کچھ نہ کچھ حصہ تلف بھی کیا جا رہا ہے لیکن اِن سبھی امور میں سرکاری اداروں کو ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی عملاً معاونت (تعاون اور شراکت داری) حاصل نہیں حتیٰ کہ جب شہریوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جابجا گندگی نہیں پھینکیں گے تو اِس مقصد میں بھی تاحال کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

کاش یہ نکتہ سمجھایا جا سکے جو کہ انتہائی بنیادی (اہم) بات ہے کہ صوبائی حکومت کے جملہ اِداروں‘ بلدیاتی اداروں‘ انتہائی بااختیار ضلعی انتظامیہ اور اہلکاروں کے اہل پشاور سے قریبی رابطے نہیں۔ شہری زندگی کا نظم و ضبط اور سہولیات کا نظام جس قدر بھی وسیع کر دیا جائے‘ یہ اپنی ذات میں ناکافی رہے گا جب تک مربوط اور منظم اقدامات نہیں ہوں گے جن میں عوام دل وجان سے شریک ہوں۔ تجویز ہے کہ پشاور کے جملہ فیصلہ سازوں کو ’سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا)‘ اور دیگر پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے عام آدمی سے ٹوٹے ہوئے رابطے اور کمزور رشتوں کو بحال کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

اگر ’پشاور شناسی کا ہدف‘ حاصل ہو گیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ خوداحتسابی عام ہوگی۔ پشاور کی ترقی و سہولیات کی فراہمی کیلئے تعینات سرکاری اہلکاروں اور سرکاری وسائل جیسی نعمتوں کی ناشکری و ناقدری نہیں ہوگی۔ صاف پانی کی بوند بوند احساس ذمہ داری کے ساتھ استعمال کی جائے گی۔ کوڑا کرکٹ پھینکنے میں تہذیب کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ خواہش ہے کہ ایک مرتبہ پھر پشاور شہر شائستگی و بھائی چارے کا گہوارہ ہو۔مٹھاس بھرے جملے اور اپنائیت سے لبالب لہجے سماعتوں میں رس گھولیں۔