یادش بخیر سال دوہزارآٹھ میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تب سال دوہزارآٹھ سے دوہزاربارہ کے درمیان ملک کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی اوسط شرح نمو دو اعشاریہ نو فیصد تھی۔ اسی عرصے کے دوران خطے کے دیگر ممالک میں ترقی کی شرح نمو چھ فیصد سے زیادہ تھی لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت جو تحریک انصاف پر تنقید کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اُسے اپنے دور حکومت میں اقتصادی حالت کے بارے میں علم نہیں یہی وجہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کی قیادت معاشی بہتری کے حوالے سے اظہار خیال کرتی ہے تو اِن کی ساری باتیں ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔حزب اختلاف کی طرف سے وزیراعظم کو ہٹانے کے لئے جو اتحاد بنایا گیا ہے وہ سوائے وقتی فائدے اور اقتدار میں شراکت داری کے سوا کچھ اور نہیں۔ اٹھائیس مارچ کے روز تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی ایوان کے سامنے پیش کر دی گئی جس کی حمایت میں 161 اراکین نے کھڑے ہو کر تحریک کو قومی اسمبلی کاروائی کاحصہ بنایا ہے جس کے بعد اجلاس تین دن کے لئے ملتوی کر دیا گیا اور اکتیس مارچ کی شام 4 بجے دوبارہ اجلاس ہوگا۔ تب حکومت کے پاس 2 آپشنز ہوں گے۔ پہلا یہ کہ اکتیس مارچ ہی کے روز تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی اراکین کی گنتی کروا لی جائے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے جبکہ دوسرا آپشن یہ ہے کہ 3 دن تک تحریک عدم اعتماد پر بحث کروائی جائے جس کے اختتام پر تحریک عدم اعتماد کی حمایت و مخالفت میں اراکین کا شمار کر لیا جائے۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں جس طرح تحریک انصاف حکومت کو ختم کرنے کے درپے ہیں اِس سے صرف موجودہ ہی نہیں بلکہ مستقبل کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر تحریک انصاف مہنگائی پر قابو پا لے تو اِس کی باقی ساری کمزوریاں معاف کی جاسکتی ہیں کیونکہ جو بھی ہو کم سے کم موجودہ دور حکومت میں سرکاری وسائل بیرون ملک بینک اکاؤنٹس میں منتقل نہیں ہو رہے لیکن کرپشن اور ناقص گورننس موجود ہے جس کی کے ان گنت واقعات جمہوریت کی کمزوری اور انسانی وسائل کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں کیونکہ وہ روایتی اور موروثی سیاستدان نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے اردگرد ایسے لوگوں کا اچھا خاصا مجمع دکھائی دیتا ہے جو تحریک انصاف کا چہرہ نہیں۔ قویئ اُمید ہے کہ عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد میں سرخرو ہوں گے جس کے بعد اُنہیں اپنی صفوں میں موجود اُن عناصر اور انتشار کا خاتمہ کرنا چاہئے جو تحریک انصاف اقتدار کا غلط فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور تحریک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو قابل ہیں اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے اچھے ارادے بھی رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں کو سامنے لایا جانا چاہئے۔ صرف نیک نیتی کافی نہیں۔ ملک چلانے کیلئے مختلف امور کے ماہرین پر مبنی ایک ایسی ٹیم بنانی ہوگی جس کے اراکین ایک دوسرے سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچیں اور پاکستان کے تناظر میں‘ یہ انتہائی ضروری و خاص نکتہ ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے کہ حزب اختلاف مضبوط ہے وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں بلکہ حزب اختلاف کی جماعتیں ایک دوسرے کے بارے شدید تحفظات رکھتی ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ”جب تک کرپشن کا ناسور ختم نہیں ہوتا اُس وقت تک پاکستان ترقی نہیں کر سکتا“ اور یہ بات سوفیصد درست ہے! پاکستان کی معاشی پستی اور انسانی وسائل کے ضیاع کی وجہ بھی یہی کرپشن ہے تو جو شخص ملک (وزیراعظم عمران خان) اگر ملک سے کرپشن ختم کرنے کی بات کر رہا ہے تو اِس ’امر بالمعروف‘ کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔ ایک ایسے شخص کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی ہونی چاہئے‘ جو اسلامی جمہوریہ کو بدعنوانی سے پاک دیکھنا چاہتا ہے اور جس نے عالمی سطح پر اسلام کا تشخص اور اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل کو ماضی کے حکمرانوں کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں اُبھارا ہے۔