خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں گذشتہ ایک مہینے کے دوران چار خواجہ سراؤں کو قتل کردیاگیا۔فائرنگ کے واقعات میں چھ خواجہ سرا زخمی ہوکر ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔پشاور کے پرہجوم تجارتی مرکز قصہ خوانی میں دن دیہاڑے مانو نامی خواجہ سرا کو قتل کردیاگیا۔خواجہ سراؤں کا طبقہ معاشرے کاعجیب طبقہ ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی ان پر سب سے پہلا ظلم بعض جگہ ان کے اپنے والدین کرتے ہیں۔معاشرے کے طعنوں کے خوف سے وہ اپنے جگر گوشوں کو دنیا کی ٹھوکروں کی نذر کرتے ہیں مرنے پر انہیں دفن کرنا بھی والدین گوارہ نہیں کرتے۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے سکول جاتے ہیں تو ان کا تمسخر اڑایاجاتا ہے۔ ملازمت کیلئے کسی دفتر جائیں تو ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجاتا ہے حکومت نے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں خواجہ سراؤں کیلئے کوٹہ تو مختص کردیا ہے مگر اس کوٹے پر ان حق تلفی نہیں ہونی چاہئے۔ انصاف کے حصول کیلئے وہ تھانہ جائیں تو ان کی شنوائی مشکل سے ہوتی ہے۔ معاشرے کے ناقابل برداشت رویے سے تنگ آکر وہ اپنے جیسوں کے پاس جاکر پناہ حاصل کرتے ہیں جہاں انہیں ناچ گا کر پیٹ کی آگ بجھانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ لوگ معاشرے کی خوشیوں میں شرکت کرتے اور اپنے لئے دو چار پیسے کماتے ہیں مگر معاشرہ ان کا دکھ بانٹنے کو کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتا۔ انہیں دنیا میں لانے کا سبب بننے والے والدین ہی انہیں اس خوف سے اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں ہوتے کہ لوگ کیاکہیں گے۔انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اپنے جگر گوشوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑنے پر ان کی پکڑ ہوسکتی ہے۔ یہ تو کارخانہ قدرت ہے کوئی لنگڑا، لولا، اندھا، بہرہ،گونگااور دیگر جسمانی اعضاء کے بغیر پیدا کر ہوتا ہے ان کی تخلیق صحت مند افراد کیلئے سبق ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمتوں، مہربانیوں اور نعمتوں کا شکر بجالائیں۔ اور معذور افراد پر رحم کریں۔ ان کی مدد اور رہنمائی کریں۔قدرت نے جسمانی طور پر معذور افراد کو تمسخر اڑانے کیلئے پیدا نہیں کیا۔ خواجہ سراؤں میں بھی وہی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو عام لوگوں میں ہوتی ہیں انہیں مواقع میسر ہوں تو وہ بھی بڑے کارنامے سرانجام دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلجیئم کی نائب وزیراعظم پیٹرا ڈی سٹر بھی خواجہ سرا ہیں مگر ان کے ملک میں کبھی ان کا تمسخر نہیں اڑایاگیا۔ حال ہی میں پاکستان میں ایک خواجہ سرا سارہ گل ڈاکٹر بن گئی ہے۔خیبر پختونخوا میں گذشتہ دس سالوں کے دوران 78خواجہ سراؤں کو اس وجہ سے قتل کردیاگیا کہ انہوں نے دوستی کرنے سے انکار کردیاتھا۔ یا دوسروں کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے۔پشاور میں جس شخص نے خواجہ سرا مانو کو قتل کیا۔ اس کو خواجہ سرا دوست نے شادی پر لاکھوں روپے قرض دیئے تھے۔ جب اپنے پیسے مانگنے وہ دوست کے گھر گیا۔تو اس نے برامنایااور اسے گولیوں سے چھلنی کر دیا معاشرے کے اس بے ضرر طبقے پر جو ظلم ہورہا ہے اس میں والدین، معاشرہ، حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے، دانشور،اساتذہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ان سب کو اپنی دانستہ اور نادانستہ کوتاہی اور لاپرواہی کا جواب دینا ہوگا۔