ٹیکنالوجی کے کرشمے

ٹیکنالوجی جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلی آنے والی ہے‘یہاں آج ایسی چند حیرت انگیز ایجادات کا تذکرہ کرتے ہیں‘یورپ اور امریکہ میں لوگ واک اور جاگنگ کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ اگر ورزش کسی ساتھی یا دوست کے ساتھ کی جائے تو اس سے ایک جانب تو جاگنگ میں دلچسپی بڑھتی ہے اور ورزش کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اب آپ کو بار بار کسی دوست کو بلانے کی ضرورت نہیں بس ایک عینک لگائیں تو میدان میں آپ کا ساتھ دینے والا دوست نمودار ہوجائے گا۔ اس ایجاد کا فائدہ یہ ہے کہ انسان دوڑتے ہوئے جلدی نہیں اکتاتا اور دوڑنے والا اپنی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا رہتا ہے۔اس عینک اور نظام کو گوسٹ اسپیسر کا نام دیا گیا ہے۔اپنے ساتھ دوڑنے والے ہولوگرافک ساتھی کی رفتار، سمت اور دیگر ڈیٹا کو آپ خود بھی سیٹ کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ پر ایک نفسیاتی اثر ہوتا ہے کہ آپ خود کو بہتر بنائے۔ گوسٹ پیسر کیلئے آپ کسی بھی مقام اور کسی بھی جگہ اپنے دوست کا انتخاب کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ فوری طور پر جاگنگ شروع کرسکتے ہیں۔اب تک یہ دنیا کا سب سے ہلکی ورچول ریئلٹی عینک کہہ سکتے ہیں۔ اس میں دوڑتا ہوا آپ کا مجازی دوست آپ کے ہفتہ وار اور ماہانہ اہداف کو پورا کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہے۔ اس میں غیرمعمولی ڈیٹا بیس بھی شامل جسے سٹراوا کہا جاتا ہے۔
 سٹراوا میں پوری دنیا میں کے میں جاگنگ کے ٹریکس کا ڈیٹا بیس شامل ہے اور آپ اپنے علاقے کی تفصیلات بھی ایپ کے ذریعے اس میں شامل کرسکتے ہیں۔جس طرح آپ دوڑتے ہیں سافٹ ویئر اس کا اندازہ لگاتا ہے اور آپ اسے شیئر کرسکتے ہیں۔ اس بنا پر آپ اپنے دوست کے دوڑنے کے عین انداز والا مجازی کردار تخلیق کرسکتے ہیں‘ خواہ آپ کا دوست صبح دوڑچکا ہے اور آپ شام کو بھاگ رہے ہیں لیکن ان تفصیلات کو آپ حاصل کرسکتے ہیں۔ایپ کی بدولت آپ دل اور نبض کی کیفیت پر نظر رکھ کر اس کے اتار چڑھا کو بھی نوٹ کرسکتے ہیں‘۔کیمبرج یونیورسٹی نے طبی تحقیق میں نئے امکانات پر قابلِ قدر کام کیا ہے جس سے تحقیق کی ایک نئی شاخ کا ظہور ہوا ہے جسے آرگنوئڈز کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں انسانی جسم کے بڑے اعضا کے بہت چھوٹے ماڈل لیکن حقیقی ماڈل بنائے جاتے ہیں اور ان پر دوا استعمال کرکے قابلِ قدر تحقیق کی جاتی ہے۔چند ماہ قبل دال کے دانے جتنا دھڑکتا ہوا انسانی دل تیار کیا گیا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ جگر، گردے، آنتوں اور دماغ جیسے اہم اعضائے انسانی کے چھوٹے ماڈل تشکیل دیئے جارہے ہیں۔
 اس ضمن میں ایک اہم نام پروفیسر ٹیریسا بروینی کا ہے جو ایک طویل عرصے سے اس پر کام کررہی ہیں۔پروفیسر ٹیریسا کی تجربہ گاہ میں ایک ٹرے میں گول گڑھوں کے اندر مائع بھرا ہے اور ان پر گرد کے ذرات کی مانند کچھ اشیا تیررہی ہیں جو حقیقت میں اعضائے انسانی کے مِنی ایچر ماڈل ہیں۔ ان میں گردوں، جگر، بائل رطوبتوں کی نالیاں، دماغ کے خردبینی گوشے اور دیگر اعضا موجود ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر انہیں آرگنوئڈز کہا جاسکتا ہے۔دوماہ قبل آسٹریا کے سائنسدانوں نے دال کے دانے جتنا دھڑکتا زندہ دل بنایا تھا جس سے ہمیں خود انسانی قلب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پھر خلوی سطح پر بیماری اور علاج کو سمجھنے کے راستے بھی کھلیں گے۔ چند ہفتے قبل بوسٹن کے سائنسدانوں نے آنتوں کا عضویہ بنایا اور یہ دیکھا کہ کووڈ 19 کا وائرس انہیں کس طرح متاثر کرتا ہے۔اب کیمبرج میں واقع ویلکم ایم آرسی اسٹیم سیل انسٹی ٹیوٹ نے انسانی جگر جیسا پیچیدہ ماڈل بنایا ہے جو ایک چمچے میں ہزاروں کی تعداد میں سماسکتے ہیں۔ یہ اعضا ٹیکے کے ذریعے جسم کے متاثرہ عضو میں بھی ڈالے جاسکتے ہیں۔