قدیم زمانے کے ہمارے بزرگ ناخواندہ ہونے کے باوجود انتہائی دانا، دور اندیش اور زیرک تھے‘ انہوں نے جو ضرب الامثال اور کہاوتیں ہمارے لئے چھوڑی ہیں وہ ہر دور میں سچ ثابت ہوئے ہیں۔اور ہمارے ادب کا اثاثہ ہیں خواہ وہ ضرب الامثال اور کہاوتیں انگریزی زبان میں ہوں، فارسی،عربی، اردو، بنگالی، پشتو، ہندکو، کہوار، گوجری، چینی، روسی، جرمن یا کسی بھی علاقائی زبان کی کیوں نہ ہوں۔کہوار زبان کی ایک مشہور کہاوت پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر بالکل صادق آتی ہے اور وہ کہاوت ہے ”موژایو نانار بے زار“یعنی مشترکہ چیز سے انسان بیزار ہوتا ہے خواہ وہ جائیداد ہو یامال و دولت ہی کیوں نہ ہو‘سیاسی جماعتوں کو یہ مشہور کہاوت اپنے پلو میں باندھ کر رکھنی چاہئے اور شراکت اقتدار سے ہر ممکن گریز کرنا چاہئے‘ اتحادیوں کو خوش رکھنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے‘اس شراکت کا موجودہ حکومت کو تلخ تجربہ ہوچکا ہے ساڑھے تین سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو جب حکومتی کشتی ہچکولے کھاتی دکھائی دی تو آس پاس سے گزرنے والی کشتیوں کی طرف چھلانگ لگانے کے تماشے شروع ہوچکے ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ کل کے جانی دشمن آج دال بانٹ کر کھارہے ہیں کسی گمنام شاعر نے شاید سیاسی کھیل کے بارے میں ہی یہ شہرہ آفاق مصرعہ کہا تھا کہ ”دشمن اگر وہ دوست ہوا ہے توکیا عجب۔یاں اعتبار دوستی جسم و جاں نہیں“وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال پر مختلف زبانوں کی کہاوتیں صادق آتی ہیں جن میں درجہ ذیل قابل ذکر ہیں‘ سرمنڈواتے ہی اولے پڑے، بخوشی بلی چولہا لنڈورا ہی بھلا،نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، جب ٹانگیں کھینچنے والے اچانک ٹانگیں دبانے لگیں تو سمجھ لینادال میں کچھ کالا ہے، ایک جاپانی کہاوت ہے کہ ہر آدمی کے تین چہرے ہوتے ہیں ایک چہرہ دنیا کو دکھانے کے لئے ہوتا ہے‘دوسرا چہرہ صرف اپنوں کو دکھانے کے لئے ہوتا ہے اور تیسرا چہرہ وہ ہے جسے دنیا اور اپنوں کی نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے، ایک عربی کہاوت ہے کہ جس شخص کے سب ہی دوست ہوں اس کے ساتھ تعلق رکھنے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
ایک افریقی کہاوت ہے کہ جب تمہارے اندر کی دنیا دشمنوں سے خالی ہے تو باہر کی دنیا میں کسی دشمن سے کوئی خطرہ نہیں، ایک بہت پیاری روسی کہاوت ہے کہ بھیڑ کو اپنا باپ کبھی یاد نہیں آتا صرف گھاس ہی یاد آتی ہے،مشہور جاپانی کہاوت ہے کہ شیروں کے غار سے بچ کر نکلنے کے بعد اپنی ٹوپی لینے واپس کبھی نہ جانا،فارسی کی یہ کہاوت اکثر مواقع پر بولی جاتی ہے کہ تربیت نااہل را چوں گردگان بر گنبد است۔یہ تمام کہاوتیں ہمارے سیاسی منظر نامے پر منطبق ہوتی ہیں ان میں سے کچھ حزب اقتدار اور کچھ حزب اختلاف کیلئے قابل غور ہیں۔گئے وقتوں کے لوگوں نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ کسی کو دوست بنانے سے پہلے خوب سوچ بچار کرو،کچھ لوگ دوست بن کر پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں۔یہ لوگ دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
سیاست دان کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں ہوتایعنی یہاں پروہی لوگ چل سکتے ہیں جو بہت ہی لچکدار رویہ اور مزاج رکھتے ہوں نہ کسی کے آنے پر خوش ہوتے ہیں اور نہ کسی کے جانے پرخفہ۔شاید اسی وجہ سے بزرگوں نے کہا تھا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ یعنی حالات کی مناسبت سے پالیسی بنانا اور موقع سے فائدہ اٹھانا سیاست کا اہم ترین اصول بن چکا ہے جس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سیاست نام ہے مصلحت اور دور اندیش کا ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی اور کو اپنی کمزوری کیوں بنایا جاتا ہے۔بہرحال سیاسیات کے طالب علم ہونے کے باوجود ہمارے ہاں کی سیاست کبھی پلے نہیں پڑی۔کیونکہ یہاں کا نقشہ آج کل اس تیزی سے بدلتاہے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں‘ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ لکھنے والا بھی لوگوں کی سیاسی وابستگی ظاہر کرتے ہوئے شاید سو بار سوچنے پر مجبور ہوگا۔