مارچ میں گرمی کامارچ 

محض ایک عشرہ قبل کی بات ہے کہ مارچ کامہینہ کچھ اس قدر ٹھنڈا گزررہاتھاکہ بعض لوگ کمروں میں ہیٹر لگانے پر مجبور تھے مگر اس بار مارچ میں اچانک گرمی نے کچھ اس طرح غیر متوقع طورپر انٹر ی دے ڈالی کہ ماہرین کے مطابق کم از کم نصف صدی کاریکارڈ ٹوٹ گیاہے گویا ماہ مارچ می موسم گرما کا مارچ جاری رہا خود محکمہ موسمیات کے ماہرین کا کہناہے کہ ان کے پاس موجود ریکارڈ کے مطابق تیس برس کے دوران مارچ میں پہلی بار اس قدر گرمی دیکھی گئی ہے اس خدشہ کااظہار بھی کیاجارہاہے کہ اپریل میں بارشیں نہ ہونے سے ماہ رمضان بھی گرمی میں ہی گذرسکتاہے اس سب کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو ہی قراردیاجارہاہے ایک عرصہ سے موسمیاتی تغیر و تبدل کے حوالے سے مختلف قسم کی تشویشناک خبریں سامنے آرہی ہیں پوری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی موسمیاتی تغیر اور درجہ حرارت میں اضافہ سے صورتحال سنگین تر ہوتی جارہی ہے  2017ء میں بھی اس قسم کی تبدیلی محسوس ہوئی تھی کہ جب  فروری کے مہینے میں درجہ حرار ت میں اضافہ ہوااس نے ماہرین کو یقیناپریشان کردیا بدقسمتی سے اس حوالے سے ہمارے ہاں سنجیدگی کاشدید فقدان چلاآرہاہے نہ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں کوہل جل نظرآتی ہے نہ ہی میڈیا اس حوالے سے کوئی کردار اداکرنے کی کوشش کررہاہے اور  اب تو محکمہ موسمیات نے باقاعدہ طور پر خبردارکردیاہے کہ وطن عزیز میں اب موسم بہار کاچل چلاؤہے۔
محکمہ موسمیات نے واضح کیاہے کہ عالمی درجہ حرار ت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان کادرجہ حرارت بھی بڑھ گیاہے اب موسم سرماکے فوراًبعد موسم گرما زور پکڑجائیگا یوں دونوں موسموں کے درمیان کاوقفہ جسے بہار کاموسم کہا جاتاہے بہت مختصر سا ہوگا جو نہ ہونے کے برابر ہوگا اگر دیکھاجائے تو گزشتہ کچھ عرصہ سے وطن عزیز کی فضا ئیں غیر یقینی کے بادلوں میں گھرتی جا رہی ہیں یوں تو پوری دنیا میں ان دنوں موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت مسائل کا سامنا ہے مگر ہمارے ہاں صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی تیاری اور پیش بندی ہی نہیں کی ہے‘ ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارا ملک اس وقت بدترین موسمی تبدیلیوں کا شکار ہو چکا ہے جس کے باعث سرد موسم کا دورانیہ کم اور گرم موسم کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے‘ دو تین عشرے قبل تک اکتوبر سے سردیاں شروع ہو جاتی تھیں‘ اکتوبر کا مہینہ بھی سرد مہینوں میں شمار ہوا کرتا تھا‘ نومبر کا مہینہ سرد ترین مہینوں میں سے ایک تھا مگر آج صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے کیونکہ ان دنوں اکتوبر میں موسم اچھا خاصا گرم رہتا ہے اور بسا اوقات تو نومبر کے اواخر میں کہیں جا کر گرم کپڑے اور سویٹر وغیرہ نکل آتے ہیں‘ اسی طرح سردی کی شدت مارچ تک رہا کرتی تھی‘ اب تو اکثر فروری میں ہی قصہ تمام ہو جاتا ہے  یوں موسم سرما بمشکل 4 مہینوں تک رہ گیا ہے اور گرمیاں طوالت اختیار کر گئی ہیں تاہم بعض ماہرین کی رائے اس کے برعکس اور بھی سخت نظر آتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ موسم سرما کا دورانیہ 115 دن سے کم ہو کر 80 دن تک پہنچ چکا ہے جبکہ موسم گرما 150سے بڑھ کر 180 دن ہو گیا ہے‘ بیچ میں بہار کا دورانیہ شدید متاثر ہوا ہے۔
ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے ماحولیات میں مختلف قسم کی تبدیلیاں محسوس کی جا رہی ہیں جو اس سے قبل ریکارڈ نہیں کی گئی تھیں‘ ان تبدیلیوں سے نہ صرف انسانی و حیوانی زندگی بلکہ زراعت پر بھی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ سب سے خطرناک امریہ ہے کہ ان غیر معمولی موسموں کا پہلے سے پتہ لگانا ماہرین کیلئے چیلنج ہے اور آنے والے چند برسوں میں اس طرح کے شدید موسموں کا خدشہ ہے‘ بدقسمتی سے موسمی تبدیلیوں کی لہر کی رفتار ہمارے ہاں کچھ زیادہ تیز ہے‘ عالمی و علاقائی تحقیق بتاتی ہے کہ موسمی تغیر سے گرم حدتی دورانیے تیز ہونگے‘ ماحول دوست توانائی کی پیداوار‘ صنعتوں کے قیام‘ توانائی کی بچت اور جنگلات میں اضافے سے شدید موسمی لہر سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے‘ وفاقی و صوبائی حکومتیں موسمی تغیر اور قدرتی آفات سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں سردیوں میں ہم مری او ر گلیات میں طوفانی برفباری کی صورت میں بھی اسکا نظارہ کرچکے ہیں ماہرین ماحولیات‘ محققین اور سائنسدانوں نے ہوشربا انکشاف کئے ہیں‘ شدید گرم لہر کے کچھ محرکات مقامی اور کچھ بین السرحدی ہیں‘ مقامی محرکات میں آلودگی خصوصاً بڑھتی آبادی‘ ٹاؤن پلاننگ کا نہ ہونا‘ بے ہنگم تعمیرات‘ فضائی آلودگی اور سرسبز ماحول کا خاتمہ ہیں۔ تعمیرات کیلئے جنگلات اور درختوں کا کٹاؤ گرم درجہ حرارت کو مزید گرم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے‘ سیمنٹ کے ڈھانچے شہری علاقوں میں حدتی جزائر بناتے ہیں یوں دن اور رات کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
 ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اکیسویں صدی کے آخر تک دنیا بھر میں موسم کی شدت میں تیزی آئے گی‘ جس کے منفی معاشی و سماجی اثرات مرتب ہونگے‘ انکے مطابق موسمیاتی تغیر کی تباہ کاریوں میں ایک عنصر فصلوں کی تباہی اور ممکنہ قحط کا بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  ہمارے ہاں  ہر سال گاڑیوں کی تعدا بڑھتی جا رہی ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھتی ہے اور لامحالہ اوزون کی تہہ مزید متاثر ہوتی جاتی ہے‘ پھر ہمارے ہاں پرانی گاڑیوں کی جو بہت بڑی تعداد فضاء میں خطرناک سطح تک زہریلی گیس خارج کرتی رہتی ہیں اس کی بدولت موسمی تبدیلی کا جن تیزی سے بے قابو ہوتا جا رہا ہے‘ موسمیاتی اور ماحولیاتی امور کے ماہرین کے مطابق تمام دنیا گرین ہاؤس گیسز کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے‘ یہ عمل روز اول سے جاری ہے‘ ہر 5 ہزار سال کے دوران ایک دفعہ سخت ترین گرمی اور ایک دفعہ سخت ترین سردی کی بدولت انسانوں کیلئے مشکلات پیدا ہوتی رہی ہیں تاہم ان دنوں حالات مختلف تھے‘ کسی ایک علاقے میں حالات خراب ہوتے تو لوگ دوسرے علاقے کی طرف نقل مکانی کر جاتے‘ اب ایسا ممکن نہیں‘ ساتھ میں اندرونی تبدیلیوں نے موسمیاتی تغیرات کی اس رفتار کو خاصا تیز کر دیا ہے‘ اگر اس کو کم نہ کیا گیا تو انسانوں کو جانوں کے لالے پڑ سکتے ہیں‘ موسمی تبدیلی کی لہر ہر چیز پر اثر انداز ہو رہی ہے ضرورت اس امرکی ہے ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے حکومتی ادارے اور میڈیا دونوں ہی اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کرنے کیلئے آگے آئیں موسمیاتی پالیسی وضع کرنے کیساتھ ساتھ شعورکی بیداری اورآگہی کی غرض سے اس کو نصاب کاحصہ بھی بنایاجائے۔