وزیراعظم نے ملاکنڈ اور سوات میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیاتو الیکشن کمیشن کی طرف سے اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دے کر وزیراعظم، وفاقی اور صوبائی وزراء کو جرمانے کئے گئے۔ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تو عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کے خلاف کاروائی سے روک دیا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن سے روزانہ وزیراعظم کو نوٹس مل رہے ہیں صبح کے وقت شکایت ہوتی ہے تو شام کو نوٹس جاری کیاجاتا ہے انہوں نے آئینی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر کو انتخابی جلسوں میں جانے سے روک سکتا ہے، سیاسی اجتماعات میں سرکاری وسائل کا استعمال غیر قانون اور غیر آئینی ہے لیکن وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف سیاسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں انہیں ملک کے کسی بھی حصے میں جلسہ کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔جن سیاسی اجتماعات سے وزیراعظم نے خطاب کیا اس کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی جمہوری نظام کا حصہ ہے۔
ہر سیاسی پارٹی کا اپنا دستور، منشور اور مقاصد ہوتے ہیں ہر سیاسی جماعت کا مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔کیونکہ ملک اور قوم کی خدمت کیلئے وسائل اور اختیارات کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور پھر مختلف سیاسی جماعتیں اجتماعی مفادات کے لئے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی اتحاد تشکیل دیتی ہیں۔آج اپوزیشن میں جو سیاسی جماعتیں حکومت کو گرانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہی ہیں وہ ماضی میں ایک دوسرے کے نظریات، منشور اور پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کرتی رہی ہیں۔سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے درمیان یہ آنکھ مچولی جاری رہتی ہے مگر قومی اداروں کو سیاست سے خود کو الگ تھلگ اور غیر جانبدار رکھنا چاہئے۔ قومی اداروں کا بنیادی مقصد آئین اور قانون کے تحت عوام کو سہولیات اور انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔تمام قومی ادارے حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں اگر ادارے تساہل برتنے لگیں تو ان کی ساکھ متاثر اور غیر جانبداری داؤ پر لگ جاتی ہے۔
ملک میں اگلے سال عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جمہوریت کے استحکام اور سیاسی عمل پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس بھاری ذمہ داری کو بطریق احسن نبھانے کیلئے الیکشن کمیشن کو اپنی پوری توجہ اپنے فرائض کی بجاآوری پر مرکوز رکھنی ہوگی۔سیاسی جماعتوں پر بھی یہ قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے دیں اور انہیں اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے سے گریز کریں تاکہ اس پر عوام کا اعتماد بحال رہے۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کا تعلق ہے تو اس ادارے نے ممکنہ حد تک اپنی غیر جانبداری کو ہر دور میں برقرار رکھا ہے اور ماضی میں جتنے الیکشن ہوئے ہیں ان میں الیکشن کمیشن کے کردار پر کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا اور اس نے جمہوریت کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں پر بھی بڑی حد تک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ الیکشن کے لئے ایسا ماحول تشکیل دینے میں الیکشن کمیشن کی مدد کریں جہاں رائے دہی کا عمل اسی طرح انجام پائے جس طرح کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔